• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
پاکستانی میڈیا کے مطابق ہم کب کے ملک میں دہشت گردی پر قابو پا چکے ہیں اور یہ ایسا بیانیہ ہے جو ہر حکومت اختیار کر چکی ہے۔ پچھلے ہفتہ متعدد فوجی نوجوان بلوچستان میں دہشت گردی کے نتیجہ میں اپنی زندگیاں کھو بیٹھے۔ صدر اور وزیراعظم کی طرف سے تعزیتی پیغامات بھی نشر کروا دیئے گئے، رسمی کاروائی مکمل ہوگئی۔ ایک طرف ملک کو سیاسی عدم استحکام اور آئے دن ہونے والے متشدد واقعات کا سامنا ہے اور دوسری طرف حکومت نے ایسے واقعات کو روزمرہ کی زندگی تسلیم کر لیا ہے۔ طویل المدت منصوبہ بندی کے فقدان پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ دونوں حقیقتیں پاکستانی عوام اور بیرونی ممالک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کیلئے باعث تشویش ہیں۔ آخر ہم ان مشکلات پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں نہایت سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جواب کسی تسلی بخش طریقہ سے عوام کو نہیں مل رہے۔ مقتدرہ کی جانب سے تبصرے اور اعلانات عوام کے مورال کو مستحکم رکھنے کیلئے صرف ایک حد تک ہی کام کر سکتے ہیں۔ مستحکم پاکستان کیلئے باقی کام حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت فکری انجماد کا شکار ہے۔ حالیہ دہشت گردی کا یہ واقعہ انتہائی گہری انکوائری کا متقاضی ہے کیونکہ جب یہ اندوہناک واقعہ ہوا اس وقت صدر آصف زرداری یا صوبہ میں موجود تھے یا انہی دنوں بلوچستان کا دورہ مکمل کرکے واپس اسلام آباد آچکے تھے۔ ہر شہادت عوام پاکستان پر ایک قرض چھوڑتی ہے اور درجن بھر فوجی جوانوں کی ایک ہی واقعہ میں شہادتیں پاکستان پر ایک اور بڑا قرض چھوڑ گئی ہیں۔ پاکستان کے دفاع میں پچھلی ایک دو دہائیوں میں فوجی اور دیگر اداروں کے لوگوں نے بہت بڑا قرض عوام کے سروں پر ڈال دیا ہے اور یہ قرض بہتر سیکورٹی کی شکل میں ہی ادا ہو سکتا ہے۔ یہ حالیہ واقعہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ ہمارا دشمن تمام حوالوں سے پاکستان کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومتوں نے مختلف سیکورٹی منصوبہ جات پر عمل کیا جن میں سے چند نیم کامیاب ہوئے اور چند ناکام۔ نیشنل ایکشن پلان ایک ایسا ہی سیکورٹی پلان تھا جس پر عمل ہوا مگر جلد ہی یہ پلان لوگوں کی نظروں سے ہٹا دیا گیا۔ قومی سلامتی اور معاشی استحکام کے منصوبہ جات پر اتفاق رائے پیدا کرکے ہی ہم ایک مستحکم پاکستان کا خواب پورا ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ صدر زرداری کے دورہ کے اردگرد ہونے والا یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں یہ پیغام بھی چھپا ہوا ہے کہ ہمارا دشمن جہاں چاہے اور جب چاہے ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگ ہماری سیکورٹی، معاشی اور سیاسی توجہ طلب صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لئے اقدامات کیوں نہیں اٹھا رہے؟64 ملین ڈالر کا سوال ہے۔ اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ بھی محب الوطن پاکستانی ہیں صرف چند کو آگے بڑھ کرپہل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ’’ڈیفاراسٹ‘‘ ہوسکے۔ ملک کو آگے بڑھنے کیلئے جس یکسو سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے وہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں موجود نہیں۔ منقسم پارلیمنٹ جس میں ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کیا حکومت واقعی اکثریتی ارکان پر مشتمل ہے یا اکثریتی جماعت کے ارکان کو انتظامی اقدامات کے ذریعہ حکومت سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ4 ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ کیا حکومت فارم45 کی بننی چاہئے یا فارم45 اور 47 والوں کی ہونی چاہئے یہ سیاسی بانجھ پن کی نشانی ہے۔ حکومت واحد ادارہ ہے جو مشکلات میں پھنسی جمہوریت کو واپس آن ٹریک کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان جیل میں ہیں ان کیلئے کسی گفتگو اور مباحثہ میں حصہ لینا ممکن نہیں اور ان کے بغیر کوئی بات چیت شروع نہیں کی جاسکتی۔ حکومت ان کو بات چیت کے مراحل سے باہر رکھنا چاہتی ہے۔ ان حالات میں ’’عمران خان ۔ The problem ‘‘ کے ساتھ معاملات طے کرنے ایک حکومتی مجبوری ہونی چاہئے۔ 16 ماہ سے قید اس شخصیت کے ساتھ عوام کا بڑا حصہ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ سیاسی اور معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ بیٹھے تاکہ معاملات کے حل کیلئے پیش رفت ہو سکے۔ آپ کا اتحاد کمزور اور نکما ہے۔ پی ٹی آئی کے حوالہ سے ابھی تک حکومتی الزامات میں نہ تو کمی آئی ہے اور نہ ہی عملی طور پر ایسے اقدامات اٹھتے نظر آئے ہیں جن سےیہ ثابت ہو کہ حکومت مفاہمت کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو صرف ایک دہائی میں اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ہمارے دوست ملک چین کی طرف سے سرمایہ کاری کا پیغام خوش آئند ہے مگر سیکورٹی کے مسئلہ پر یہ ملک بھی پریشان ہے۔ قومی مفاد میں پی ٹی آئی چیف سے بات کرنا اچھا قدم ہوگا۔ چینی قیادت کی طرف سے سی پیک II اور اس منصوبہ پر کام کرنے والے چینی ماہرین کی سیکورٹی کے حوالہ سے تشویش ہمارے لئے ایک وارننگ ہے کہ ہمیں ملکی سیکورٹی کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک نئے سیکورٹی پلان کا اعلان ہو چکا ہے۔ تمام پاکستانی لوگ خوا وہ ملک میں رہتے ہیں یا بیرون ملک آباد ہیں نئے سیکورٹی پلان جسے ’’عزم استحکام‘‘ کا نام دیا گیا ہے کی کامیابی کیلئے دعاگو تو ہیں مگر ایک بار پھر اس نئے پلان کی ناکامی کا خوف بہتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ’’میرے یہ بازو آزمائے ہوئے ہیں‘‘۔
یورپ سے سے مزید