• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح… لیڈز
(گزشتہ سے پیوستہ)
جب 1954بدنامِ زمانہ راولپنڈی سازش کیس کی آڑ میں پاکستان میں کیمونسٹ پارٹی اور اس سے منسلک عوامی تنظیموں، بشمول ڈیمو کریٹک اسٹوڈینٹس فیڈریشن، انجمن ترقی پسند مصنفین، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن،پاکستان کسان کمیٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تو این ایس ایف کے سرگرم کارکن خاموشی سے پہلے سے قائم حکومت نواز طلباء تنظیم نیسنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن میں شامل ہوتے گئے اور 1956تک اُس پر باقاعدہ غلبہ حاصل کر لیا۔ حسن اور محسن کے مطابق یہ بات بڑی شدت سے محصوص کی جا رہی تھی کہ پاکستان کی انقلابی تحریکوں میں اہم کردار ادا کرنے والی اِن تنظیموں کی جدوجہد کی داستانوں کو باقاعدہ تحریر کر کے محفوظ نہ کیا جا سکا۔ البتہ اِس کا ذکر مختلف اوقات میں تحریر کردہ مضامین اور سرگرم شخصیات سے گفتگو کی شکل میں تو ملتا ہے، جو گاہے بگاہے ملتے رہے لیکن اُن کی کوئی باقاعدہ کتابی شکل موجود نہیں تھی۔ اِس کمی کا احساس کرتے ہوئے 2012میں فیس بک پر این ایس ایف ریویذٹڈ کے نام سے ایک صفہ کی بنیاد رکھی گئی، جِس کا مقصد این ایس ایف کے سابق کارکنان کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ایسی اجتماعی تاریخ نویسی کی کاوش کا آغاز کرنا تھا، جِس کے نتیجے میں ان دو تنظیموں کی مکمل تاریخ مرتب کی جا سکے۔ کارکنوں کی اپنی یادداشتیں، چنیدہ شخصیات سے روبرو یا بذریعہ ٹیلی فون گفتگو، دستاویزات، تصاویر اور شائع شدہ مواد، وہ تمام ذرائع تھے جن سے اِس کاوش میں مدد لی گئی۔ سورج پہ کُمند کی پہلی جلد میں پاکستان کی سیاسی تاریغ کی بہت سی ایسی نامور شخصیات کے مضامین، انٹرویوز، خاکے، یا پھر اُن پر لکھے گئے مضامین شامل کر کے، حسن اور محسن نے اِس کتاب کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا تھا۔ پاکستان کے ترقی پسند طلباء کی جدوجہد کرنے والوں کو وقت کے دھاروں نے وہ چیخیں بھی پہنچائی تھیں، جو ملک کے طول و عرض میں قائم قید خانوں میں روا رکھے گئے تشدد کے نتیجہ میں بلند ہوئیں۔ اُن تک ان قیدیوں کی روداد بھی پہنچی تھیں جو بندی خانوں میں اپنی جوانیاں کھو بیٹھے تھے۔ وہ اُن جسمانی اور نفسیاتی زخموں سے بھی واقف تھے جو اُن کے ساتھیوں کو اس جدوجہد کے انعام میں ملتے تھے۔ ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے والے ڈکٹیٹر ضیاء کے سیاہ دور میں ٹکٹکی سے بندھے صحافیوں کی تصویریں بھی اُن کی نگاہوں سے اُس وقت اوجھل نہ تھیں، جب وہ ضیاء دور میں صحافیوں کی سب سے بڑی جنگ میں شریک رضاکارانہ گرفتاری پیش کر رہے تھے۔ یہ جہدِ مسلسل اور لہو رنگ کہانی کسی رومانی جذبہ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ایک خالصتاً شعوری جدوجہد کی کہانی ہے، جِس میں شریک بہادر نوجوانوں کو علم تھا کہ وہ دوُر سے حسین نظر آنے والے ستاروں پر نہیں بلکہ ظلم، جبر، استحصال اور تشدد کے سمندر پہ کمند ڈال رہے ہیں۔ بعد ازاں این ایس ایف میں اختلافات نے جنم لیا تو متعدد ترقی پسند طلباء تنظیمیں وجود میں آئیں۔راقم نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز 1978میں سوشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا اور 80کی دہائی کے وسط میں اس کا جنرل سیکرٹری رہا۔ اس تنظیم نے بھی ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر اللہ داد لونی، زاہد پرویز، رانا محمد اعظم، عقیل قاظمی، عذرہ روشنک، مختار چوہدری، طاھر لغمانی، فرحت عباس، مختار رحمت، نعیم شاکر، ناصر منصور، اقبال ملک، لیاقت نصیر جیسے منجھے ہوئے انقلابی راہنما پیدا کئے، جو نہ صرف اپنے ماضی کی جدوجہد کا حصہ رہے بلکہ اب تک ترقی پسند سیاست میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بقول احفاظ الرحمٰن کے، اُن ترقی پسند کارکنوں کی آرزوؤں کے رنگ ذات کے خانے میں قید نہیں تھے، بلکہ وہ دُنیا سے بدصورت مناظر کو ملیامیٹ کرنے کے لیے اپنی ذاتی اسائشات کو قربان کرتے ہوئے جدوجہد کرتے تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ وہ صبح سے رات تک اِس بدقسمت ملک کی اندھیاری راہوں میں چراغ روشن کرتے جاتے تھے۔ اُن کے خواب یا اُن کے مطالبات بہت سادہ، بے ضرر اور خوبصورت تھے، اس کے باوجود نابینا عقیدوں اور معزوُر نظریوں کے نام لیوا اُن کے لیے غداری کی اسناد جاری کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اُن کے یہ الفاظ اُن تمام ترقی پسند سیاسی کارکنوں و رہنماوں کی عقیدت میں تھے، جو اپنی ساری زندگی سماجی تبدیلی کی جدوجہد کی نظر کر دیتے ہیں اور اپنے اس عہد پر قائم رہتے ہیں کہ طبقاتی تقسمِ دولت کا نظام ختم ہونا چاہیے، مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے عوام، ناداروں، مزدوروں اور کسانوں کو باعزت انداز میں جینے کا حق ملنا چاہیے، تعلیم سستی اور عام ہونی چاہیے، غلامی کی تمام بدصورت تصویروں اور رنگ، نسل، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر فضیلت کا علم لہرانے والے تاریک کرداروں کا خاتمہ ہونا چاہیے، جو نفرت کی فصلیں اگاتے ہیں، اور ذاتی مفادات کے جوھڑ میں غسل کرنے کے بعد درآمد شدہ خوشبوؤں کی بوچھاڑ اپنے جسم پر کرتے ہیں۔ آؤر ہم سب اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر ایک منظم، متحرک، متحدہ اور باعمل ترقی پسند تحریک پیدا کرنے اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
یورپ سے سے مزید