• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پی ٹی آئی کیخلاف ٹیریان وائٹ کیس ناقابل سماعت قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری


اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس نا قابل سماعت قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے 54 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے درخواست پر 30 مارچ 2023 کو سماعت کی، بینچ میں جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس محسن اختر کیانی شامل تھے۔

 فیصلے میں کہا گيا ہے کہ درخواست گزار پاکستانی شہری اور امریکی عدالت کے فیصلے میں خود فریق نہیں ہے، صرف ٹیریان جیڈ خان ہی قانونی حق وراثت یا ولدیت کیلئے غیر ملکی عدالت کی ڈگری قابل عمل بنانے کا حق محفوظ رکھتی ہے، ٹیریان جیڈ خان کے علاوہ کوئی اور شخص قانونی طور پر ایسا نہیں کر سکتا، وہی فریق عدالت آ سکتا ہے جو غیر ملکی عدالت کی ڈگری کو پاکستان میں قابل عمل کروانا چاہتا ہو۔

 فیصلے میں یہ بھی کہا گيا ہے کہ درخواست میں بانی پی ٹی آئی پر زنا سمیت غیر قانونی و ناجائز رشتوں کے الزامات  لگائے گئے، پٹیشنر اس بات کا عینی شاہد ہے نہ ہی وہ اس کی تصدیق کسی تسلیم شدہ عدالتی فیصلے سے ثابت کرسکا۔

 پٹیشنر نے بانی پی ٹی آئی کی ذاتی زندگی و کردار پر الزامات لگا کر ٹیریان کی زندگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے، اس سے عورت کی آئندہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، تمام الزامات قرآن و سنت کے منافی اور غیر تسلیم شدہ ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ وکلاء کی جانب سے دلائل کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا گیا، جسٹس محسن کیانی نے درخواست پر اپنا فیصلہ تحریر کیا جس سے جسٹس ارباب طاہر نے بھی اتفاق کیا۔ لارجر بینچ کے 2 اراکین کے فیصلے کے مطابق درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے چیف جسٹس کے سیکریٹری اور رجسٹرار کو نوٹ لکھے، جسٹس محسن کیانی نے اپنے نوٹ میں فیصلے کو کازلسٹ میں شامل کرنے کی ہدایت کی، بظاہر رجسٹرار کی جانب سے بغیر کسی معقول وجہ کے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا، سمجھ سے بالاتر ہے کہ جسٹس محسن کیانی کی بارہا ہدایت کے باوجود فیصلہ کازلسٹ میں کیوں شامل نہ کیا گیا، جسٹس محسن اختر کیانی کی ہدایت پر فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا، جسٹس محسن اختر کیانی سے پوچھے بغیر فیصلے کو ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا گیا۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے نوٹ لکھا کہ تین رکنی بینچ کے 2 ممبرز فیصلہ سنا چکے وہی اکثریتی فیصلہ تصور ہوگا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عوام کی آسانی کیلئے اس فیصلے کے اہم پوائنٹس اردو میں بھی تحریر کیے گئے ہیں، چیف جسٹس عامرفاروق نے نوٹ لکھا جس میں انہوں نے ایک صحافی کے ٹوئٹ کا ذکر کیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی کے ٹوئٹ پر کیس سننے سے معذرت کرلی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے اپنے فیصلے میں درخواست کو قابل سماعت قرار دیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے بینچ توڑتے ہوئے درخواست پرنیا بینچ تشکیل دینے کی ہدایت جاری کی، چیف جسٹس کے اس اقدام نے بینچ کے اکثریتی فیصلے کو کالعدم کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجربینچ نے سابقہ بینچ کے فیصلے پر انحصار کیا، جسٹس طارق محمود جہانگیری کی سربراہی میں 3 رکنی  لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا، لارج ربینچ نے کہا کہ اس معاملے پر پہلے ہی 2 ارکان کا اکثریتی فیصلہ موجود ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بینچ سربراہ کے الگ ہونے پر تحلیل ہوگیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار موجود ہے، ایک بار بینچ تشکیل دینے کے بعد چیف جسٹس بینچ میں رد و بدل نہیں کر سکتے، صرف جوڈیشل آرڈر کے تحت معاملہ چیف جسٹس کو بھیجے جانے پر ہی بینچ میں تبدیلی کی جا سکتی ہے، اگر بینچ کا کوئی رکن کیس سننے سے معذرت کرتا ہے تب ہی چیف جسٹس بینچ میں رد و بدل کا اختیار رکھتے ہیں، جب ایک درخواست پر فیصلہ ہوچکا  تو چیف جسٹس کا بینچ ختم کرنے اور معاملے پر نیا بینچ تشکیل دینے کا اختیار نہیں رہتا، اس صورت میں بینچ کی تبدیلی عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش تصور ہوگی، اختلاف رائے ایک جج کا حق ہوتا ہے جو وہ ضرورت کے تحت استعمال کرتا ہے، بینچ کے ممبران کا ایک دوسرے سے اختلاف رائے نئے بینچ کی تشکیل کا جواز نہیں، ججز کی آزادی انتظامی اختیارات سے ختم نہیں کی جاسکتی۔

قومی خبریں سے مزید