آئے روز ٹریفک کے سنگین حادثات کی دلخراش خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر کم و بیش ہر چھوٹے بڑے شہر میں اور قومی شاہرات پر درجنوں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں کئی قیمتی انسانی جانیں ناحق اور بے گناہ لقمہء اَجل بنتی ہیں ۔اور کئی ایسے حادثات بھی ہوتے ہیں کہ جن میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد بشمول معصوم بچے اور خواتین موت کی وادیوں میں جاتے نظر آتے ہیں جبکہ موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز کی بھی بالکل ایسی ہی صورتحال ہے حالانکہ وہاں تو انتہائی تربیت یافتہ ٹریفک پولیس فورسز ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ بد قسمتی سے ایسے حادثات کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسکا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ اب حادثات کی خبروں کی اہمیت بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ان حادثات پر ہمارا قومی رد عمل حکومت کی جانب سے محض چند الفاظ پر مبنی اظہارِ افسوس ہی ہوتا ہے ایسے حادثات کی وجہ سے گھروں کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ہزاروں خاندان برباد ہو چکے ہیں مگر حکومتی سطح پر ٹریفک حادثات کی رو ک تھام کے حوالے سے کبھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ۔اگر اس حوالے سے متعلقہ قوانین کا جائزہ لیا جائے تو موٹر وہیکل آرڈیننس مجاریہ 1965اور ٹریفک رولز موجود ہیں مگر حادثات کی روک تھام اور اسباب کا جائزہ لینے کے حوالے سے کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ تعزیرات پاکستان 1860کی دفعہ 279تیز رفتاری اور لاپروائی سے گاڑی چلانے کے متعلق ہے اسکی سزا دو سال تک قید ہو سکتی ہے مگر یہ قابل ضمانت جرم ہے۔ جبکہ غفلت ولا پر وائی اور تیز رفتاری سے قتلِ خطا کا ارتکاب کرنے والے کے لیے بحوالہ دفعہ 320ت پ دس سال تک قید کی سزا ہے مگر یہ جرم بھی قابلِ ضمانت ہے۔ بھلے حادثے میں پچاس بندے ہی فوت کیوں نہ ہو جائیں جرم قابلِ ضمانت ہی رہے گا۔ اسی طرح غفلت اور تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو زخمی کرنے کی سزا پانچ سال تک قید ہے اور یہ جرم بھی قابلِ ضمانت ہے۔ قانونی طور پر قابلِ ضمانت جرم سے مُراد یہ ہے کہ ملزم کو پولیس ازخود بھی ضمانت پر رہاکر سکتی ہے اور مجاز عدالت بھی۔ اِن جرائم کے ارتکاب پر ضمانت پر رہائی ملزم کا حق قرار دیا گیا ہے اور یہ ضمانت بغیر کسی بحث و تمحیص اور دلائل کے تھالی میں رکھ کر ملزم کو پیش کی جاتی ہے۔ قانون کی اس نرمی اور گنجائش کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون کا سِرے سے خوف ہی ختم ہو گیا ہے۔ ٹریفک حادثات کی چیدہ چیدہ وجوہات میں گاڑیوں میں کوئی فنی خرابی بھی شامل ہے اور ڈرائیور حضرات کالا پروا ہونا بھی جبکہ قانون کی گرفت کا کمزور ہونا بھی ایک بڑی وجہ ضرور گردانی جا سکتی ہے۔ پبلک سروس ڈرائیور حضرات کی اکثریت غیر تربیت یا فتہ، ہٹ دھرم، ضدی،نشے کی عادی اور نا اہل ہوتی ہے۔ ہائی ویز پر پبلک سروس ڈرائیور حضرات کا دوسری گاڑیوں کے ساتھ ریس لگانا ایک مشغلہ، عادت اور مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز سڑکوں پر بد قسمتی سے موت کا ناچ دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ذمہ داران کی سرکوبی کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ہمارے ہاں مقابلے کے امتحان سے زیادہ مشکل کام ہے اِن حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ انسانی جان کے تحفظ کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ صرف اہل اور ذمہ دار شخص ہی کو گاڑی چلانے کا لائسنس دیا جائے۔ اگر پبلک سروس گاڑی چلانے والا ایک مستند ڈرائیور نہیں تو اس سے بڑا ظلم اور زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی گلوبل سٹیٹس آن روڈ سیفٹی 2023کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ٹریفک حادثات میں سالانہ تقریباََبارہ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق ٹریفک حادثا ت میں اموات کی شرح سائوتھ ایسٹ ایشیا میں 28فیصد، ویسٹرن پیسفک 25فیصد، افریقہ19 فیصد، امریکن ریجن 12فیصد ، جبکہ یورپ میں 5فیصد ہے ۔ ہمارا ملک ایشیا پیسفک روڈ سیفٹی آبزر ویٹری فورم کا ممبر بھی ہے اس فورم کا کام ٹریفک حادثا ت کے حوالے سے مواد اکٹھا کرنا، اسکا کا جائزہ لینا، اور روک تھام کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنا ہے۔ اسی فورم کا ایک تربیتی اجلاس ابھی چند دن قبل استنبول میں ہوا ہے جس میں فورم کو مزید موثراور متحرک بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے اموات کی شرح ایشیا میں بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی اتنی ارزاں کیوںہے،سالانہ ہزاروں افراد کا حادثات میں فوت ہو جانا کیا ایک اہم ترین قومی مسئلہ اور سنگین المیہ نہیں؟ اس مسئلہ سے چشم پوشی کی قطعاََ گنجائش نہیں حادثات سے بچائو اور روڈ سیفٹی کے حوالے سے عوام میں شعور کی بیداری کا اہتمام کیا جانا چاہیے جبکہ سکول کی سطح پر نئی نسل کے لیے آگاہی پروگرامز شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی جان کے تحفظ کی خاطر عملی اقدامات ہو سکیں۔ اگرحادثات کی روک تھام کی خاطر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو سڑکوں پر موت کی آنکھ مچولی کا کھیل یُوں ہی جاری رہےگا۔