• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم ابو القاسم علی طوسی معروف بہ فردوسی (پہلی قسط)

مضمون نگار، بہاول پور کی تحصیل، خیرپورٹامے والی سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلامیہ یونی ورسٹی، بہاول پور سے ماسٹرز کرنے کے بعد بسلسلۂ روزگار، لاہورمیں مقیم ہیں۔ تین دہائیوں سے دنیائے شعر وادب سے وابستہ ہیں۔ کئی شعری مجموعے اور سفرنامے شائع ہوچکے ہیں، متعدد عالمی مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اخبارات کے لیے متنّوع موضوعات پر کالمز، مضامین لکھتے رہے ہیں اور فارسی شعروشاعری کے حوالے سے بھی خاصا کام کر رکھا ہے۔ 

بلاشبہ، فارسی زبان، اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے شعروشاعری کا اتنا وسیع اور عظیم ذخیرہ رکھتی ہے کہ اِسے دنیا کی کسی بھی بڑی زبان کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے، تو اسی حوالے سےحسن عباسی نے فارسی کے سات عظیم شعراء، فردوسی، رومی، خیّام، سعدی، شیرازی، عرفی اور جامی کے دل چسپ حالاتِ زندگی سے کچھ چیدہ چیدہ واقعات قلم بند کیے ہیں۔ جنھیں ہم ’’جنگ،سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کے لیے قسط وار پیش کرنے کا اہتمام کررہے ہیں۔ ’’فارسی زبان کے سات عظیم شعراء‘‘ کے عنوان کے تحت ، ہمارے نئے سلسلے ’’شعراء کرام‘‘ میں آج ملاحظہ فرمائیں،حکیم ابوالقاسم علی طوسی، المعروف فردوسی کا احوالِ زیست۔ (ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

10ویں صدی (چوتھی صدی ہجری) کے نام وَر فارسی شاعر، حکیم ابوالقاسم علی طوسی، معروف بہ فردوسی940ء (329ھ)میں ایران کے صوبے، خراسان کے شہر، طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور 1020ء میں اسّی برس کی عُمر میں اُن کا انتقال بھی وہیں ہوا۔ بعض روایات میں اُن کا سالِ وفات 1025ء اور عُمر پچاسی برس بتائی گئی ہے۔ اُن کے والد کا نام منصور بن فخر الدین احمد بن مولانا فرخ تھا۔ فردوسی، طوس کے جس مردم خیز خطّے سے تعلق رکھتے تھے، اُس کی خاک نے امام غزالی ؒ اور معروف محقّق طوسی جیسے افراد پیدا کیے۔ 

فردوسی کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کا آغاز چھے برس کی عُمر میں ہوا، البتہ اُنھیں اپنے اِردگرد کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اُن کی غزنی آمد سے متعلق تذکرہ نویسوں نے تاریخ کی کتابوں میں مختلف روایات رقم کی ہیں۔ تاہم، ایک روایت معتبر خیال کی جاتی ہے کہ اُن کا خاندان وہاں کے حاکم کے ظلم و ستم سے تنگ تھا، جب کہ اُن دنوں سلطان محمود غزنوی کی عدل و سخاوت کے چرچے چہار سُوعام تھے۔

فردوسی نے سوچا کہ کیوں نہ بادشاہ کے رُوبرو ان پریشانیوں اور ظلم و ستم کی داستان بیان کی جائے، شاید اس طرح اُنھیں اوراُن کے خاندان سمیت بہت سے لوگوں کو ظالم حاکم سے نجات مل جائے۔ سو، وہ اپنے بھائی مسعود کو والد کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ کر خود غزنی کی طرف روانہ ہوگئے۔ فردوسی، ’’سیرالملوک‘‘ اور ’’بستان نامہ‘‘ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے اور اکثر ان سے استفادہ بھی کرتے تھے۔ 

ان کتابوں کی روشنی میں اُنھوں نے وطن چھوڑنے سے پیش ترہی اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’شاہنامہ‘‘ لکھنے کا آغاز کردیا تھا، اور اُس وقت تک ضحاک، فریدون اور سیاوش کے حالات نظم کرچُکے تھے۔ وہ غزنی میں ایسے وقت آئے، جب ساتوں شاعر دربارِ شاہی میں اپنے اپنے کمالاتِ فن، قبولیت کے لیے پیش کرچُکے تھے۔ جیسا کہ عنصری نے باپ، بیٹے رستم و سہراب کی لڑائی کا احوال رقم کیا تھا۔ 

جب ساتوں فن پارے دربار میں پیش ہوئے، تو اُن میں سے وہی فضیلت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور معتبرقرار پایا، جس پر محمود کی نظرِ عنایت ٹھہری۔ نیز، فردوسی کے غزنی کی طرف سفر کرنے کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اُن کے علم میں یہ بات تھی کہ محمود غزنوی کا نصب العین ہے کہ ’’شاہنامہ‘‘ کو تکمیل تک پہنچایا جائے۔ سو، فردوسی نے عزم کیا کہ جیسے بھی ہو، ’’شاہنامہ‘‘ مکمل کرکے اُس کے عوض بادشاہ کے دربار سے زرِ کثیر حاصل کرے گا اور پھراپنے شہر میں پُل کی تعمیرکا کام سرانجام دے گا کہ جہاں دریا میں طغیانی کی وجہ سے اکثر تباہی آجاتی تھی۔

فردوسی شاعر تو باکمال تھے، مگر ایران کی قدیم تاریخ کا کوئی نسخہ اُن کے پاس نہیں تھا کہ جس سے وہ اکتساب کرتے، لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ اُن کا اضطراب اور بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ ایک دن اتفاقاً اُنھوں نے اپنے دوست، محمد لشکری سے اپنی ناکامی پر افسوس کا اظہارکیا، تو اُن کی حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ محمد لشکری کے پاس توایران کی قدیم تاریخ کا ایک کامل نسخہ موجود تھا، جو اُنھوں نے بخوشی فردوسی کے حوالے کردیا۔ فردوسی کی افسردگی بے پناہ خوشی میں بدل گئی۔ 

نسخہ حاصل کرنے کے بعد اُن میں ’’شاہنامہ‘‘ لکھنے کا ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوگیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُن ہی دنوں طوس کے ایک بڑے بزرگ، محمد معشوق نے بھی فردوسی کے حق میں دُعا کی کہ ’’بیٹا! ہراساں کیوں ہو، جائو دُنیا بھر کی شہرت تمہارے لیے ہے اور تم ضرور کام یاب ہوگے۔ اپنا کام جلد شروع کردو۔‘‘ 

مشہور تھا کہ اللہ نے محمد معشوق کی زبان میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ وہ جس کے لیے بھی دُعا کرتے ہیں، سندِ قبولیت پاتی ہے، تو فردوسی کو اُن کی دُعا سے بھی پورا اطمینان حاصل ہوگیا، جس کے بعد اُنھوں نے سب سے پہلے فریدون و ضحاک کی لڑائی کا حال نظم کیا۔ یہ حصّہ، جس نے بھی سُنا، خُوب داد و تحسین سے نوازا۔ یہاں تک کہ حاکمِ طوس، ابومنصورتک جب یہ اشعار پہنچے، تو اُس نے فردوسی کو بلا کرانعام و اکرام سے نوازا، خُوب عزت افزائی کی اور وعدہ کیا کہ ’’جب یہ کتاب مکمل ہوجائے گی، تومَیں محمود کے دربار تک تمہاری رسائی ممکن بنادوں گا۔‘‘

مگر اس بات کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ابومنصور بیمار ہوا اور اُس کا انتقال ہوگیا۔ فردوسی کو ابومنصور کی اچانک رحلت سے دلی صدمہ ہوا، کیوں کہ وہ اُس کا قدردان اور اُمیدوں کا مرکز تھا اور فردوسی نے اسی لیے ’’شاہنامہ‘‘ میں اپنے دوست محمد لشکری کے بعد نہایت دردمندانہ اشعار میں ابو منصور کا ذکر کیا ہے۔ ابومنصور کی وفات کے بعد سلطان محمود نے ارسلان خان کو اُس کا جانشین بنایا۔ چوں کہ اُس وقت تک فردوسی نے غزنی میں خاصی شہرت حاصل کرلی تھی، اس لیے طوس کے نئے گورنر کو حکم دیا کیا گیا کہ فردوسی کو جلد دارالخلافہ کی طرف بھیجا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ 

فردوسی، غزنی پہنچے، تو اُن کی ملاقات محمود کے حلقۂ خاص میں شامل ایک شخص ماہک سے ہوئی۔ وہ فردوسی کا کلام سُن کر حیران رہ گیا۔ اُس نے کچھ روز اُنھیں اپنے گھرمہمان رکھا اور پھر چند روز بعد فردوسی نے جب دربار تک رسائی کی درخواست کی، تو ماہک نے مناسب حالات دیکھ کر فردوسی کو سلطان محمود کے دربار تک لے جانے کی خوش خبری سُنائی۔ 

دراصل، ماہک نے فردوسی کے ساتھ اپنی دوستی، اُس کی شاعرانہ علمیت و قابلیت اور ابتر حالات کا ذکر جب محمود غزنوی کے سامنے کیا، تو دربارِ شاہی سے فوراً فردوسی کو پیش کرنے کا حکم صادر ہوا۔ فردوسی دربار میں آئے، تو محمود غزنوی نے اُن کی بہت عزت و توقیر کی۔ تب فردوسی نے سلطان کی شان میں فی البدیہ ایک نظم بھی پڑھی، جو اس قدرعمدہ تھی کہ محمود اور تمام اہلِ درباراَش اَش کر اٹھے۔ ہرطرف سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ یوں فردوسی کی قسمت کا ستارہ چمکااوراُنھیں محمود کا قُرب حاصل ہوگیا۔ 

سلطان محمود نے تاریخِ فارس سے متعلق اُن سے بہت کچھ دریافت کیا، تو فردوسی نے نہایت فاضلانہ اور ادیبانہ انداز میں جواب دیے، جس سے واضح ہوگیا کہ فردوسی ہی ملوکِ عجم کی تاریخ نظم کرنے کے صحیح حق دار ہیں۔ محمود غزنوی نے خوش ہوکر فردوسی کو خلعتِ فاخرہ مرحمت فرمائی اور اُنھیں نظم، ’’شاہنامہ‘‘ مکمل کرنے کا کام سونپ دیا۔ سلطان محمود نے اس موقعے پر شعرائے دربار سے فہمائش کی کہ دو شعر اُس کے دوست ایاز کی تعریف میں بھی کہے جائیں۔ 

سب شعراء نے ادب کے تقاضے کو مدِّنظر رکھتے ہوئے فردوسی کی طرف نگاہ کی۔ فردوسی کو چوں کہ فی البدیہ اشعار کہنے میں ملکہ حاصل تھا، تواُنھوں نے اُسی وقت ایک عمدہ رباعی پڑھی، جو محمود کو اس قدر پسند آئی کہ اُس نے فرطِ جذبات میں کہا کہ ’’اے فردوسی! مجلسِ ما را فردوس ساختی۔‘‘ (اے فردوسی! آپ نے ہماری مجلس فردوس بنائی)۔

’’مجالس المومنین‘‘ میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے حکم دیا کہ فردوسی کے لیے ایک خاص کمرا ایوانِ شاہی میں آراستہ کیا جائے، تاکہ اُنھیں ’’شاہنامہ‘‘ نظم کرنے میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اور کوئی چیز اُن کی پریشانئ طبع کا باعث نہ بنے۔ مزید برآں، سلطان محمود نے اپنے زمانے کے نام وَر مصوّروں اور نقّاشوں کو فردوسی کے کمرے کی سجاوٹ کا کام سونپا اور ہدایت کی کہ وہ اُن کے کمرے کو عظیم بادشاہوں، جنگجوئوں اور مسلّح بہادروں کی تصاویر سے آراستہ کریں۔ اس کے علاوہ شیروں، ہاتھیوں، قلعوں، محاصروں، بادشاہوں، فوجوں، سامانِ حرب اور عظیم فارس کی تصاویربھی بنوائیں۔ غرض یہ کہ اسباب مہیّا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ 

مطلب یہ کہ فردوسی جس کمرے میں آرام کرتے، جس ماحول میں رہتے، اور ’’شاہنامہ‘‘ نظم کرتے وقت اُن کے دل و دماغ میں جو کچھ چل رہا ہوتا، وہ سب یک ساں ہی ہوتا۔ اُس ماحول ہی سے اُنھیں ایک ایسی خاص تحریک اور مہمیز ملی تو اُنھوں نے انتہائی خُوب صُورت اندازاور پیرائے میں تاریخ نظم کرنا شروع کی۔

جب نظم کا کوئی حصّہ مکمل ہوجاتا، تووہ سب سے پہلے سلطان محمود کو سُناتے، جسے سُننے کے بعد وہ داد دیے بغیر نہ رہ پاتا۔ وہ کہتا، ’’ہم نے مؤرخین سے یہ باتیں اور داستانیں بارہا سُنی ہیں، مگر ایسے موزوں اور دل نشیں الفاظ کبھی نہیں سُنے، جو فردوسی اپنی نظم میں سجا لاتے ہیں۔ اِنھیں جنگ و جدال اور معرکہ آرائیوں کے بیان میں اس قدر مہارت ہے کہ سُن کر یوں لگتا ہے کہ ہم اُسی دَور میں پہنچ گئے ہیں اور سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘‘

سلطان کے حُکم پر فردوسی کے کمرے کے لیے تزئین و آرائش کا سارا کام اور ’’شاہنامہ‘‘ نظم کرنے کے لیے سازگار ماحول کا اہتمام و انصرام پروزیرِ خاص، حسن میمندی نے سرانجام دیا۔ سو، وہاں سوائے ایاز(محمود غزنوی کا محبوب غلام اور مشیر) اور حسن میمندی کے کسی پرندے کو بھی پَرمارنے کی جرأت نہ تھی۔ ہاں، چند خاص خدمت گار فردوسی کی خدمت کے لیے ضرور مقرر تھے۔ ایاز، فردوسی کو باپ کا مقام دیتا اور اُن کی خُوب عزت کرتا۔ 

سلطان نے حسن میمندی کو حُکم دے رکھا تھا کہ ’’فردوسی جب ایک ہزار بیت مکمل کرلیا کریں، تو اُنھیں فوراً ایک ہزار اشرفی دے دیا کرو۔‘‘ فی بیت ایک اشرفی دینے کا وعدہ سلطان نے ازخود فردوسی سے کیا تھا، جب کہ تن خواہ اس کے علاوہ مقرر تھی۔ 

دربار میں سلطان محمود جب فردوسی کے ’’شاہنامہ‘‘ سے اشعار سنتا، تواُس کی خوشی دیدنی ہوتی۔ یوں لگتا، جیسے اُسے اپنا عظیم خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہو۔ اس موقعے پرسلطان اُس کی اس قدر تعریف کرتا کہ اہلِ دربار حیران رہ جاتے، جب کہ دیگر شعراء رقابت کی آگ میں جلنے لگتے۔

’’حیاتِ فردوسی‘‘ کے مصنّف کے بقول،’’سلطان محمود، فردوسی پرفریفتہ تھا اور اس جوش و جذبے سے اُن کی مدح کرتا تھا کہ اُس سے قبل کسی کو یہ مقام نصیب نہ ہوا تھا کہ محمود جیسے سلطان سے ایسی مدح کرواکے اُس کا دل اپنی طرف کھینچ لے۔‘‘ بہرحال، فردوسی کی اس قدر پذیرائی کے باعث دربار میں اُن کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ 

محمودغزنوی کے قریبی وزراء اور شعراء کو اپنی قدرکم ہوتی دکھائی دی، تو وہ فردوسی کے خلاف یک جا ہوگئے۔ خاص طور پر حسن میمندی، جو کہ محمود کا وزیرِ خاص بھی تھا۔ (سرجارج ہملٹن اور عظیم سمرقندی نے اُسے فارن سیکرٹری لکھا ہے)۔ حسن میمندی کو ایک تو اس بات کا غصّہ تھا کہ فردوسی نے کبھی اُس کی شان میں کوئی بیت نہیں لکھی۔ (جاری ہے)