میر صاحب نے کہا تھا
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتاہے دیواروں کے بیچ
یہ دنیا ایک عبرت گاہ ہے ۔ یہاں آپ کو ایسا ایسا تماشہ نظر آئے گا کہ آپ گنگ ہو کر رہ جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر ان تماشوں کا نظارہ آپ کو سوشل میڈیا پہ ملے گا۔ ابھی چند روز قبل ایک مولوی صاحب نے گانا ریلیز کیا ۔ اس کے بول اور لبِ لباب یہ تھا کہ تم نے جو اپنی بیٹی کو پڑھنے کیلئے سکول، کالج یا یونیورسٹی بھیج رکھا ہے ، وہ وہاں ڈانس کر رہی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ وہ وہاں مردوں کے ساتھ دوستی کر چکی ہے اور پارٹیز میں ڈانس کرتی پھر رہی ہے۔ مراد یہ کہ اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کیلئے ہرگزنہ بھیجو ، اگر تمہیں اپنی عزت عزیز ہے تو۔ یہ تو حال ہے پاکستان میں رہنے والے ایک مولوی صاحب کا، جنہوں نے خود ساری زندگی سکول، کالج اور یونیورسٹی کا منہ تک نہیں دیکھا۔
ایک صاحب ہیں ،بڑے مشہور۔ کہانیاں لکھا کرتے۔ یہاں مالی مسائل سے دوچار رہے۔ پھر امریکہ چلے گئے کہ آسودہ ہو سکیں۔ امریکہ میں بھی مسائل سے دوچار رہے۔ ایک یو ٹیوب چینل بنایا، جسے شروع میں بڑی پذیرائی ملی لیکن مونیٹائز نہ ہو سکا۔ محنتی آدمی ہیں، ٹیکسی چلانے لگے۔ انہوں نے ایک دن پاکستان میں اپنی ناکامی کا خلاصہ لکھا کہ خواتین کیوں میڈیا میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ان کے جیسے ٹیلنٹڈ لوگ کیوں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ان کے الفاظ تو یہاں نقل کیے جانے کے قابل نہیں البتہ لبِ لباب یہ تھا کہ خواتین اپنی نسوانیت کی وجہ سے میڈیا میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ جتنی بھی خواتین میڈیا میں یا دوسرے اداروں میں کامیاب ہوتی ہیں، وہ اسی وجوہات کی بنیاد پر کامیاب ہوتی ہیں۔ یعنی کوئی خاتون اپنی قابلیت کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہوتی۔ دراصل یہ اپنی ناکامی پر اپنی انا کو ذہنی تسکین پہنچانے کی کوشش تھی کہ میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا تھا، کیونکہ میں عورت نہیں تھا۔ بندہ ان سے پوچھے، جو مرد پاکستانی میڈیا میں کامیاب ہوئے اور خواتین سے کہیں زیادہ کما رہے ہیں، وہ کیسے کامیاب ہوئے؟ پنجابی کا محاورہ یہ ہے کہ ’’ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمیار تے‘‘
اگر آپ غور کریں تو جو مولوی صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی بیٹیوں کو سکول نہ بھیجو، وہ وہاں غلط کام کرتی ہیں اور بظاہر امریکہ میں مقیم اس سیکولر شخص کی، جو خود کو Rationalکہتا ہے، اندر سے دونوں کی ذہنیت بالکل ایک ہے۔ دونوں دراصل عورت کو آسودگی کا ایک Toolسمجھتے ہیں۔ دنیا میں کچھ لوگوں کی ناکامی کا خمیازہ ساری دنیا کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ساری انسانیت کو انکی ناکامی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ معاشرے کو چاہئے کہ چندہ اکٹھا کر کے ایسے شخص کو مالی طور پر آسودہ کر ے، اگر آپ معاشرے کا ذہنی سکون چھننے سے بچانا چاہتے ہیں۔
پھر سیکولر بھائی اس بات پر مصر ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دراصل ایک فرضی شخصیت ہیں۔ یہ لوگ شف شف کر رہے ہیں، شفتالو نہیں کہتے۔ کھل کر نہیں کہتے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں۔ سب اپنے آپ بنا ہے۔ آج کل یہ شخص ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ شروع شروع میں کئی مختلف قرآن موجود تھے۔ ان میں سے بعض آج بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی ادارے کے پاس موجود ہیں۔ مقدسات اور متفقہ مذہبی عقائد پر وہ اس وقت بھی پوری قوت سے حملہ آور ہوا تھا، جب وہ نیا نیا امریکہ گیا تھا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ دھمکی آمیز پیغامات ملیں تو اسائلم اور امریکی نیشنلٹی حاصل کی جا سکے۔
میری عمر اب 38برس ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں مختلف فرقوں کو ایک دوسرے سے دیوانوں کی طرح لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہر شے پر اختلاف دیکھا ہے۔ اگر کسی چیز پر رتی برابر بھی اختلاف نہیں دیکھا تو وہ قرآن ہے۔ میں جب کالج میں تھا تو اس وقت میں نے اٹھارہ سیپارے حفظ کیے۔ کہیں کوئی شخص زیر زبر کی بھی غلطی کر جائے، حفاظ باآسانی پکڑ لیتے ہیں۔ ہر سال تراویح میں اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انگریزی، اردو کی کوئی کتاب یوں حرف بحرف، زیر زبر کی درستی کے ساتھ حفظ نہیں کی جا سکتی۔ آپ دس سال میں بھی کر لیں تو دس لاکھ روپے انعام آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
آج دنیا بھر میں مختلف فرقے سے تعلق رکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس رسالت مآب ﷺ کے تبرکات موجود ہیں۔ آپ کے مبارک بال، وہ جوتا، جسے آپ نے پہنا۔ پھر احادیث کی کتب موجود ہیں، جن پرشیعہ سنی سمیت مختلف فرقوں کے ایک دوسرے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آج تک دنیا کے کسی ایک مسلمان نے یہ دعویٰ نہیں کیاکہ اس کے پاس مختلف قرآن موجود ہے۔ حالانکہ سیکولر صاحب کی بات اگر درست ہوتی تو اس طرح کے ہزاروں قرآن آج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہونا چاہئیں تھے۔ آپ کوئی ایسا قرآن دنیا کے سامنے پیش تو کریں اگر سچے ہیں تو۔
مغرب آج مسلمانوں پر حملہ آور ہے۔ متعصب اتنا کہ مسلمان عورتوں کو حجاب سے روک دیتا ہے۔ کیا اسے اس بات کا غم نہیں کہ اس کی مذہبی کتابیں بدل گئیں۔ پوری دنیا میں مسلمان ایک قرآن کے حامل ہیں۔ اس نے بھی کبھی یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ انجیل کی طرح قرآن بھی بدل چکا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ چندہ اکٹھا کر کے اس بیچارے کو امریکہ میں سیٹ کرائیں اگر کوئی نیشنلٹی کا مسئلہ ہے، تو حل کرائیں تاکہ وہ پرسکون ہو سکے۔