• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حادثے میں جاں بحق شکیل تنولی کے والد احتجاج پر گرفتار، عدالت ایڈووکیٹ جنرل و آئی جی اسلام آباد پر برہم

اسلام آباد ہائی کورٹ—فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ میں 2022ء میں گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق شکیل تنولی کے والد رفاقت تنولی کی گرفتاری پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل اور آئی جی اسلام آباد پر اظہارِ برہمی کیا ہے۔

کیس میں عدم پیشرفت پر رفاقت تنولی کو احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی جس کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ ایک ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا ایف آئی آر ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ یہ لوگ احتجاج کر رہے تھے اور ریڈ زون میں جانا چاہتے تھے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ تو کیا ہوا کوئی دہشت گرد ہیں وہ؟ احتجاج کرنا غلط ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ رفاقت تنولی اور دیگر لوگوں کے خلاف ایک مقدمہ درج ہے، انہوں نے اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہوئے ڈی چوک جانے کی کوشش کی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پھر سوال کیا کہ احتجاج کرنا جرم ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ پولیس نے مظاہرین کو انگیج کرنے کی کوشش کی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سرزنش کی کہ کیا کوئی دہشت گرد ہیں جو انگیج کیا؟ اپنے الفاظ میں محتاط رہیں، کیا وجہ تھی جو وہ احتجاج کر رہے تھے؟

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جس وقت حادثہ ہوا یہ گاڑی جسٹس شہزاد احمد خان کی فیملی کے استعمال میں تھی، گاڑی کی سپر داری سے متعلق ہماری درخواست مسترد کر دی گئی، اب ہم تحقیقات میں بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 2 سال سے انہیں انصاف نہیں ملا تو وہ کیا کریں؟ احتجاج ان کا حق ہے، آپ نے ان کے بندے اٹھا لیے، شوق سے تو کوئی باہر احتجاج کے لیے نہیں نکلتا، کبھی گلہ آیا کہ آپ بیان ریکارڈ نہیں کر رہے تو ذمے داری آپ پر ہو گی۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مظاہرین انصاف نہ ملنے پر احتجاج کر رہے تھے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ احتجاج کر رہے تھے تو غلط کر رہے تھے؟ کیا چالان جمع ہو چکا ہے؟

آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ابھی عبوری چالان جمع کرایا گیا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ نظام کی ناکامی ہے، 2022ء کا معاملہ ہے، اب 2024ء آدھا گزر چکا ہے، آئی جی صاحب! آپ سسٹم کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں، پولیس انویسٹی گیشن کر رہی تھی، 14 دن میں چالان جمع ہونا ہوتا ہے، اگر کارروائی نہیں ہو رہی تو ایک شخص داد رسی کے لیے کیا کرے؟ اب وہ احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔

قومی خبریں سے مزید