پاکستان اور افغانستان صدیوں سے ایک ہی سرزمین کا حصہ اور باشندے دوستی اور بھائی چارے کی لڑی میں پروئے چلے آرہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے متصل افغان سرزمین پر بسنے والے لوگوںکے مثالی تعلقات میں کبھی کمی نہیں آئی۔1970ءکی دہائی تک دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی سطح پرپائی جانے والی قربت کی کئی مثالیں موجود ہیں جبکہ اس سے اگلی دہائی باہمی تعلقات کے امتحان کی تھی،جب افغان سرزمین پر سوویت یونین نے قبضہ کرلیا،جس کی پاکستان نے شدید مزاحمت کی اورلاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی اب تک کرتا چلا آرہا ہے۔سوویت فوج کے انخلا کے بعد طالبان حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا اور عالمی سطح پر اس کی سفارت کاری کا کردار ادا کیا،تاہم نائن الیون کے بعد جب نیٹو فوج افغانستان آئی تو اس کی آڑ میں وہاں بھارت کو کھل کھیلنے کا موقع ملا جس نے دہشت گردوں کو پاکستان کو نشانہ بنانے میں مدد دی،حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کو پاکستان سے دور کرنے کی سازشیں کیں۔امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد دونوں ملکوں کو روایتی تعلقات بڑھانے کا موقع ملا،قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے جامع مذاکرات میں اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے معاہدے عمل میں لائے گئے۔اس کے بعد افغان طالبان حکومت پہلے والی دوستی اور بھائی چارے کا ابھی تک ثبوت نہ دے سکی۔کالعدم ٹی ٹی پی کو معاہدے کی رو سے اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کی بجائے پاکستان پر اس کےدہشت گرد حملوں کا کوئی نوٹس نہیں لیاجس سے دونوں ملکوں کے صدیوں پرانے دوستی اور بھائی چارے کے تعلقات پر ضرب لگی۔اربوںروپے کی تجارت کا بڑا حصہ اسمگلنگ میں تبدیل ہوااوران کی معیشتیں نقصان سے دوچار ہوئیں۔وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک مثلث کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ قازقستان کے شہر آستانہ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ سربراہی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے زوردے کر کہاکہ دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات کرتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت کو پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرنے چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کر رہی ہے ،جبکہ ہمارے چیلنج مشترکہ ہیں ،خطے میں امن و سلامتی اور غربت کے خاتمے کیلئے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ خطے کے روشن مستقبل کیلئے ہمیں جغرافیائی اور سیاسی محاذ آرائی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا ۔وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ایک اہم تجارتی گزرگاہ ہے ،جس کے تناظر میں سی پیک منصوبہ خطے کے ممالک کیلئے ترقی و خوشحالی کی منزل آسان بنانے میں مدد دے گاجبکہ افغانستان میں پائیدار امن ہمارا مشترکہ ہدف ہے ،جس کیلئے وہاں کی حکومت کے ساتھ بامعنی بات چیت کرنا ہوگی۔وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ خطاب شنگھائی تعاون تنظیم سے وابستہ ممالک کیلئے انتہائی فکر انگیز ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جو کشیدگی اور تنائو کی کیفیت پائی جاتی ہے ،یہ محض ان دونوں کا مسئلہ نہیں ،خطے کا معاشی و سماجی مستقبل اور ترقی و خوشحالی کیلئے یہ معاملہ بڑا اہم ہے ،جس پر سنجیدگی و متانت کے ساتھ سوچ بچارکرنے اور تمام مسائل کا ٹھوس حل نکالنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں دوحا تھری مذاکرات میں افغان وفد نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ایک بار پھر یقین دہانی کروائی ہے،دونوں ملکوں کےمثالی تعلقات کی بحالی کیلئے اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں۔