قارئین کرام! موجودہ ذمے دارانِ ریاست پاکستان! ذرا غور تو فرمائیں، آج ہماری اسلامی جمہوریہ جس جس طرح اور جتنے اضطراب میں ہے وہ کتنا گھمبیر اور پیچیدہ ہے؟ اتنا کہ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں رہی۔ ہم اس حالت زار پر متوجہ بھی ہیں اور باہم دست و گریبان بھی۔ اگر ہمارا اسٹیٹس کو (جمود) بھی برقرار رہتا تو یہ حالت بھی پریشان کن ہی ہےاور تھی، اب تو ہمارا حال اس سے بھی کہیں بدتر ہے۔ ہم سست ارتقائی کیفیت اور بار بار بگڑتی اکھڑتی حالت سے روبہ زوال ہیں، ریاستی انتظام کے تمام اداروں اور عوامی خدمات کے تمام سرکاری محکمہ جات خصوصاً زراعت و خوراک، صحت وتعلیم اور ان سے متعلق شعبے رو بہ زوال ہیں۔ مہنگائی و بے روزگاری انتہا پر ہے۔ ہمارے جن اداروں اور مختلف شعبوں میں اہلیت و کارکردگی کو تسلیم کیا جاتا تھا اور کئی میں تو ہماری حیثیت و درجہ عالمی سطح پر جانا مانا جاتا اور شہرہ آفاق رہا، وہ اب جمود یا کمی کی طرف ہی مائل نہیں بعض اہم ترین کو تو ان کی حساسیت کے پیش نظر زیر بحث لانا بھی بذات خود حساس معاملہ ہے۔ جس کے عالمی شواہد سامنے آ رہے ہیں۔
کہنے دیجئے کہ تلخ ترین قومی امور سے گریز احتیاط نہیں اب جرم بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے پبلک سروس کے کتنے ہی شعبے بربادی کی سطح پر ہیں لیکن یہ ہی سب کچھ اور آخری حقیقت نہیں، یہ بھی ہے اور اس سب سے کہیں بڑھ کر ہے کہ ’’زوال پذیر قومیں سنبھلتی اور بحال ہی نہیں ہوتیں،آگے بڑھتی ہیں، اپنی ترقی کی پائیداری کو یقینی بناتی ہیں اور رفتار بڑھا کر وہ اہداف حاصل اور مراحل طے کرتی ہیں کہ محض جلا ہی نہیں پاتیں اپنے خطے اور دنیا میں بھی نمایاںاور نیک نام ہوتی ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر اقوام کے زوال و کمال کی یہ طویل حقیقی کہانی، سنہری تواریخ میں ڈھلی ہمارے لئے موجود و زندہ سنہری اسباق و حقائق ہیں۔
جاپان، عوامی جمہوریہ چین ،پورا سکنڈے نیوین ریجن، ملائشیاو سنگا پور، ظہور پذیر نیا ترکیہ، جنوبی کوریا، ویت نام بڑی حد تک بھارت ، بنگلہ دیش اس کی مثالیں ہیں تو ایران مشکل ترین حالات میں اپنا بنیادی مطلوب استحکام اور خود مختاری و وقار قائم کرنے اور رکھنے میں دنیاوی مقاطعہ کے باوجود خود کو سخت گیر آزاد ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے مقابل دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سیاست و معیشت پر غالب ہوئی سیاسی و معاشی عالمی قوت امریکی اینگلو بلاک آج اپنی سیاست و معیشت اور سماجی استحکام اور جمہوری و عسکری تشخص میں سرد جنگ 1947-1991والا واضح غلبہ گنوا بیٹھے ہیں۔ ان کے اپنے تھنک ٹینکس اور متعلقہ سکالرز اس امر کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم ایشین برینڈ کی مقابل ظہور پذیر سیاسی معاشی عالمی قوتوں کے بڑھتے غلبے کے چیلنج سے دو چار ہوگئے ہیں۔ امریکی اینگلو بلاک کی یوکرین کو نیٹو کے دائرے میں لانے کی ناکام مہم جوئی اور اس کے ہولناک روسی عسکری ردعمل نے مغرب کو زیر کرتی اس تلخ حقیقت کو تقریباً مکمل ثابت کردیا ہے۔ خاتمہ سرد جنگ اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد دنیا پر امریکی بلاک کا (سنہری موقع کے حوالے سے) یقینی نظر آتا غلبہ جس طرح دھاک بٹھائے عالمی سیاسی بلاک کی مغلوب ہوتی کیفیت میں آگیا اس نے ثابت کردیا کہ سیاست و معیشت عالمی ہو ملکی یا علاقائی، اس پراپنا کنٹرول قائم رکھنے اور بڑھانے میں کوئی قانون قاعدہ یا سسٹم نہیں بلکہ قائدین کی ذاتی اپروچ و رویہ اور حکومتوں کی غلط و درست پالیسیاں ہی سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں، آج دنیا کے ہر ملک،خطے اور اس کے عالمی مقام و امیج کا گہرا تعلق ان ہی شخصی اپروچز اور منفی یا کامیاب پالیسی و فیصلہ سازی سے جڑا نظر آتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جو ترقی پذیر دنیا میں اپنے اپنے قومی مزاج اور پریکٹس کے حوالے سے سب سے زیادہ جمہوری مملکتیں ہیں، کے عوامی رویوں اور حکمرانی و حکومتی رویوں کے الیکشن میں نکلے نتائج نے انتہائی دلچسپ انداز میں ٹھوک کر ثابت کردیا ہے کہ آنے والے وقت میں ماضی قریب کی طرح رائے عامہ ہی وہ اصل طاقت اور حقیقت ہوگی جو دنیا کی سیاست ، معیشت اور سماج کے رویے کی تشکیل کی صلاحیت سے لیس ہے، الگ ہے کہ :بلاکس پالیٹکس اور خطوں و مملکتوں کے کرتے دھرتے’’ قوت اخوت عوام‘‘کے مقابل اسٹیٹس کو (نظام بد) کی حفاظت کے لئے خود کو پہرے داری اور چوکیداری کا اسیر بنا کر عوام کو دبانے ، کچلنے اور زیر کرنے پر تل جائیں اس سے حصول کمال کی منازل میں نئی رکاوٹیں حائل تو ہوں گی، پرانی موجود منفی طاقت بھی بڑھےگی ،لیکن جتنی بڑھے گی اتنی ہی وقتی ثابت ہوگی، لیکن پلہ بالآخر قوت اخوت عوام کا ہی بھاری رہے گا۔ ایسے کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ عوامی باہمی ضرورتیں و مفادات، ہر ملکی یا عالمی اولیگارکی نظام (مافیہ راج) پر صرف حاوی ہی نہیں ہوں گی بلکہ اس کے مکمل حساب و احتساب کرنے کی پوزیشن میں جلد اور مکمل آ جائیں گی۔ اسٹیٹس کو کے محافظ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے لیس چھوٹے بڑے کمیونیکیشن بریگیڈ کا بھی مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ سوشل سائنسز کے دریافت نالج کی روشنی میں یہ امر مکمل مصدقہ ہے کہ انسانی زندگی میں مشکل ترین کام انسانی رویوں میں تبدیلی لانا ہے، جسے کمیونیکیشن سائنس نے پہلے ممکن بنایا اور اب کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے اس ’’مشکل ترین کام‘‘ (رویوں میں تغیر برپا کرنا) کو آسان بنا دیا ہے۔ متعلقہ علوم کی معاونت سے اس کی شائستگی اور اسے اعلیٰ پروفیشنلزم کے ٹریک پر چڑھانے کی تدابیر تلاش کرنے کا کام جاری ہے۔ یہ وہ مختصر ترین SITUATIONAL ANALYSIS (صورتحال کا تجزیہ) ہے جس میں آج بھی بیش بہا وسائل (لیکن جامد) کے حامل پوٹینشل لیکن سخت ابتر پاکستان کو گرداب سے نکال کر جامد موجود وسائل اور صلاحیتوں کو متحرک کرتے وقت کے اولین چیلنج ، گھمبیر قومی مسائل کی ترجیحاً نشاندہی اور سکت برابر حل کی تلاش کرنی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا جہاں میں ایڈمنسٹرٹیو سائنس کے مطابق فیصلہ سازی کا یہ ہی اصول سب سے نتیجہ خیزہے کہ :جو فیصلے بمطابق صورتحال ہوں گے وہی سب سے زیادہ حصول نتائج (مطلوب) کے ضامن ہوں گے۔ آئندہ’’آئین نو‘‘ میں پاکستان کو جلد سے جلد ابتری و اضطراب کی کیفیت سے نکالنے کیلئے رویوں میں تبدیلی برپا کرنے اور اس کے بعد کیا کرنے؟ کے سوال کے جواب گھمبیر قومی بحران کے حل کی تجویز کے طور قومی مکالمے کیلئے پیش کئے جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)