سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین کی بنیاد پر متعین ہونے والی خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کے بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی اپیلوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ گزشتہ روز جاری کردیا ۔ پانچ کے مقابلے میں آٹھ ججوں کے اکثریتی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی طور پر حقدار ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور عرفان سعادت خان نے اکثریتی فیصلہ قلمبند کیا ہے جبکہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے مختصر فیصلے میں ان اپیلوں، درخواستوں اور متفرق درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشترکہ جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا علیحدہ اختلافی نوٹ قلمبند کیا ہے۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے وضاحت کی ہے کہ اس نے کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہے البتہ سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالا تر ہے‘41ارکان کو آزادامیدوار ڈکلیئر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی البتہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا، جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر امتناع دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کی وجہ سے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت ان سے انتخابی نشان واپس لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جن 39 اراکین اسمبلی کو تحریک انصاف کا رکن قومی اسمبلی قرار دیا گیا انہوں نے کاغذات نامزدگی میں اپنی وابستگی پی ٹی آئی سے ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کیلئے پارٹی ٹکٹ اورڈکلیریشن ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جو کہ ان امیدواروں نے جمع نہیں کروایا تھا، لہٰذا ریٹرننگ افسروں کیلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کرتے۔ وفاقی حکومت نے اپنے ردعمل میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جو اس نے مانگاہی نہیں تھا لہٰذا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس پر نظرثانی کی درخواست دینے کے بارے میں غور کیا جائے گا۔ متعدد قانونی ماہرین کے بقول فیصلے سے ابہام کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے۔ فیصلے کے نفاذ کے بعد تحریک انصاف پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل کرلے گی اگرچہ اتحادی حکومت کی مجموعی اکثریت متاثر نہیں ہوگی۔تاہم نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی تو اس کا فیصلہ آنے تک پارلیمان کی حتمی شکل نمایاں نہیں ہوسکے گی مگر یہ امر یقینا خوش آئند ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک مدت بعد ایک اہم مقدمے کی سماعت فل کورٹ نے کی جبکہ برسوں سے اہم آئینی مقدمات تین چار مخصوص ججوں ہی کی بینچ میں سنے جانے کی روایت چلی آرہی تھی۔ علاوہ ازیں ایسے حساس مقدمے میں بھی شفافیت کی خاطراس کی کارروائی براہ راست نشر کیے جانے کا بندوبست کیا گیا جس کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ بظاہر حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ کی مشکلات بڑھانے والے فیصلے سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ آج عدلیہ ماضی کے برعکس طاقتور حلقوں کی مداخلت سے حقیقتاً آزاد ہے۔