• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا اکثر نہیں ہوتا کہ آپ کو ہر روز وہ کچھ مل جائے جو نہ صرف آپ کی زندگی میں اجالا بھردے بلکہ امید کا ایسا چراغ روشن کردے جسے کوئی آندھی نہ بجھا سکے ۔ یہ ایسے غیر معمولی واقعات اور تجربات ہیں کہ اپنے پیچھے ان مٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں ۔

عالیہ حمزہ اور صنم جاوید اب ایک سال سے زائد عرصے سے قید ہیں۔ انھوں نے نہ صرف سفاک ریاستی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ ان کے چہروں پر سجی مسکراہٹ نے بہت سے راستے روشن کردیے ہیں۔ ضمانت مسترد ہونے کے بعد وہ قیدیوں کی وین یا کمرہ عدالت سے مسکراتے ہوئے نکلتی ہیں۔ من گھڑت الزامات کا سامنا کرنے جب ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائی جاتی ہیں تو یہی مسکراہٹ ان کے ہم قدم ہوتی ہے۔ بہادری اور دلیری پرداد تحسین دینے والے اپنے دوستوں کے درمیان ہوں یا جیل کی کوٹھڑی میں، جہاں موت کا ساسکوت طاری ہوتا ہے، مستقبل کی تشویش سے بوجھل سوچ، اپنے بچوں، اپنے اہل خانہ اور جسمانی اور نفسیاتی مصائب کے درمیان ان کے چہرے پر یہی مسکراہٹ رہتی ہے۔

ان کا اپنے لیڈر کے نام پیغام حوصلے کی سند لیے ہوئے ہے: ’’خان صاحب سے کہو کہ وہ ہماری وجہ سے سمجھوتا نہ کریں۔ ہم ماضی میں دباؤ میں نہیں جھکے ، مستقبل میں بھی کسی طرح کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ہم کبھی ان کی کمزوری نہیں بنیں گے۔ ہم ان کی طاقت ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

پھر فولادی اعصاب والی خاتون ڈاکٹر یاسمین راشد جن کی اپنے انداز کی مسکراہٹ سفاک دلوں میں چھید کررہی ہے۔ وہ بھی ایک سال سے زیادہ عرصے سے قید ہیں کیونکہ جب بھی ضمانت ملتی ہے تو انھیں جھوٹے الزامات میں فوری طور پر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کینسر سے لڑتے ہوئے وہ حقیقی طور پر آزاد اور خودمختار پاکستان کے مشن کی تکمیل تک آگے بڑھنے کے اپنے عزم میں ایک لمحے کیلئےبھی نہیں ڈگمگائیں۔

اس کے بعد شاہ محمود قریشی، سینیٹر اعجاز چوہدری، محمود الرشید اور عمرسرفراز چیمہ ہیں۔ ایک دوسرے کے سا تھ ایک ناقابل تقسیم گروپ کی طرح ایک ایسے مقصد سے جڑے ہوئے ہیں جو انھیں اپنی آزادی سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ بھی عرصہ دراز سے جیل میں ہیں لیکن اپنے مشن کی سچائی پر ان کے پائے استقامت میں لرزش تک نہیں آئی۔ ریاستی جبر کا سامنا کیا ہے لیکن وہ اپنے ملک کو استبداد کے چنگل سے بچانے اور آئین کے تقدس اور قانون کی حکمرانی کو بحال کرنے کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ بے پناہ مصائب جھیلنے کے باوجود ہزاروں دیگر کارکنان اور حامی بھی ’’حقیقی آزادی‘‘ کی حمایت کیلئے پرعزم ہیں۔ ان میں سے کچھ جیلوں میں بند ہیں جب کہ دیگر ان مصائب کی دلخراش داستانیں سنا رہے ہیں جو انھوں نے برداشت کیے کیونکہ انھوں نے سر جھکانے سے انکار کر کے غیر انسانی سلوک کا سامنا کیا۔

ریاستی جبرکے سامنے عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کے چہروں پر مسکراہٹ ، ڈاکٹر یاسمین راشد کا پختہ عزم، شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، محمود الرشید، عمر چیمہ کی ثابت قدمی اور تحریک انصاف کے سینکڑوں حامیوں کی قربانیوں نے زندگی کو ایسی جدوجہد سے آشنا کر دیا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اکثر کا خیال تھا کہ یہ جذباتی لہر وقتی ہے، جلد ہی اتر جائے گی۔ اسکے برعکس عز م کا یہ پودا تن آور درخت بنتا چلا گیا۔ آج استقامت کی ناقابل یقین داستانیں رقم ہو رہی ہیں اور یہی استقامت آج تحریک انصاف کا دل ہے۔ ہر روز نئی اذیت اسے مزید جلا بخشتی ہے۔ یقین کی قیمتی ڈور سے بندھی تحریک انصاف کی ہم آہنگی پہلے سے کہیں زیادہ توانا ہے۔ یہ اپنے جوہر میں یکتا، منفرد اور ناقابل پیمائش ہے۔ یہ سوچ سمجھ رکھنے والے اور ترقی پسند پاکستان کے وژن میں شامل ہے جو انتہائی مشکل حالات میں اپنی خودمختاری کی حفاظت، اور اپنے لوگوں کے دکھوں کو کم کرنے کیلئے ایسے حالات پیدا کرنے کیلئے پرعزم ہے جہاں وہ عزت اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ عزم و ہمت کا یہ قافلہ بڑھتے بڑھتے ایک جری لشکر بن چکا ہے ۔

مایوسی کے اس گھٹن زدہ ماحول میں تحریک کے حامیوں کی مسکراہٹ اور مضبوط اعصاب نے امید کا گلشن مہکا دیا ہے۔ پاکستان کو نئے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اسے جرم اور بدعنوانی پر محیط بوسیدہ ماضی سے نکل کر ایسے کردار والے لوگوں کو سامنے لانا چاہیے جن کے دل اپنے ملک کی محبت میں دھڑکتے ہیں۔ وہی پرانی ترکیبیں آزمانااور امید کرنا کہ ان سے مختلف نتائج برآمد ہوں گے، ایک ناقص سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو پاکستان کو درپیش سنگین چیلنجوں کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

اصولی طور انسانی ذہن میں انا اور احمقانہ مہم جوئی کی جگہ معقولیت کو جگہ ملنی چاہیے۔ ماضی کا تسلسل یا ماضی پر ہی ملمع کاری کر کے اسے خوش نما چہرے سے پیش کرنا کام نہیں دے گا۔ حالات انتہائی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ مسکراہٹ، پختہ عزم، یقین اور استقامت تبدیلی کو پروان چڑھانے والے دیگر عناصر ہیں۔ عالیہ حمزہ، صنم جاوید، یاسمین راشد اور بہت سے دوسرے نامعلوم خاموش مجاہدوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ماضی کی کوٹھڑیوں سے نکال کر نجات کی راہ پر گامزن کر رہی ہے۔ عنقریب ہم اس مسکراہٹ کو چراغ منزل بن کر لاکھوں راہوں کو روشن کرتے اور پاکستان کو ان راہوں پر آگے بڑھتا دیکھیں گے۔ (صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکر ٹری انفارمیشن ہیں)

تازہ ترین