• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندھی محبت سے اندھی نفرت جنم لیتی ہے۔ اگریہ نفرت سیاسی کاروبار میں تبدیل ہو جائےتو اس کا نتیجہ قتل و غارت کی صورت میں نکلتا ہے۔ نفرت کی سیاست کے یہ نتائج دنیا کے مختلف ممالک میں نظر آ رہے ہیں۔ 13 جولائی 2024ء کو امریکا کے ایک شہر بٹلر میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر کیا جانے والا قاتلانہ حملہ اسی نفرت کانتیجہ ہے جس کی لپیٹ میں آج دنیا کی سپر پاور بھی آ چکی ہے۔ خوش قسمتی سے رائفل کی گولی ٹرمپ کے کان کو چھو کر نکل گئی۔ حملے کےبعد ٹرمپ نے اپنے اوسان بحال رکھے۔ خون آلود چہرے کے ساتھ انہوں نے مکے لہرائے اور فائٹ فائٹ کہتے ہوئے اسپتال چلے گئے۔ اس حملے کے فوراً بعد، بہت سے پاکستانیوں نے ٹرمپ کا عمران خان کے ساتھ موازنہ شروع کردیا کیونکہ 3 نومبر 2022ء کو پاکستان کے ایک شہر وزیر آباد میں ایک ریلی کے دوران عمران خان پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ عمران خان اس حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے لیکن انہوں نے بھی حملے کے بعد بہت جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ٹرمپ اور عمران خان میں مماثلت تلاش کرنے کا سلسلہ 13 جولائی کے قاتلانہ حملے کے بعد شروع نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ تو ٹرمپ اور عمران خان کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے شروع ہوگیا تھا اور مماثلت تلاش کرنے والوں کا مقصد دونوں کی تعریف نہیں بلکہ دونوں پر طنز کے تیر برسانا تھا۔ حیرت انگیز طور پر ٹرمپ پر حملے میں ان کا ایک حامی جان سے چلا گیا اور عمران خان پر حملے میں بھی ان کا ایک حامی قربان ہوا تھا۔ پاکستان میں عمران خان کے ٹرمپ سے موازنے کا سلسلہ ستمبر 2015ء میں شروع ہوا، جب پرویز ہود بھائی نے انگریزی اخبار ڈان میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ اس کالم میں عمران خان کی پارٹی کو برگر بچوں کا بریگیڈ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا گیا تھا اور کہا گیا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ایک غیر سنجیدہ سیاست دان ہیں جو اقتدار میں آگئے تو پاکستان کو کسی جنگ میں دھکیل دیں گے۔ 2018ء میں عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن گئے تو امریکا کے معروف کامیڈین ٹریوزنوح نے ’’دی ڈیلی شو‘‘ میں خان کو پاکستان کا ٹرمپ اور ٹرمپ کو امریکا کا عمران خان قرار دیا۔ ابتدا میں عمران خان اور ٹرمپ کے آپس میں تعلقات اچھے نہ تھے لیکن پھر جولائی 2019ء میں عمران خان نے بطور وزیر اعظم امریکا کا دورہ کیا۔ ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات بہت اچھی رہی۔ اس ملاقات میں ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جس پر بھارت کو بڑی تکلیف ہوئی۔ ٹرمپ دراصل عمران خان کے ذریعے افغان طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے اور اپنی فوج کو افغانستان سے نکالنا چاہتے تھے۔

عمران خان نے اپنے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کے ذریعہ افغان طالبان اور امریکا میں مذاکرات کے لئےسہولت کاری کی۔ فروری 2020ء میں افغان طالبان اور امریکا میں دوحہ امن معاہدہ ہوگیا۔ معاہدے پر عملدرآمد کے چکر میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرلی اور منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کی مکمل تفصیلات آج تک عمران خان کے سینے میں دفن ہیں۔ مجھ جیسے کچھ گستاخوں نے باجوہ کو دی جانے والی توسیع پر تنقید کی تو تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے جمہوریت پسندوں سے بھی گالیاں کھائیں کیونکہ جناب نوازشریف اور عمران خان سمیت جناب آصف علی زرداری ہر قیمت پر باجوہ کو توسیع دینا چاہتے تھے۔ مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو پرویز ہود بھائی نے ڈان میں ایک اور کالم لکھا جو ان کے سات سال پرانے کالم کا تسلسل تھا۔ پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ کےبارے میں کالم کی دوسری قسط میں ٹرمپ اور خان پر یوٹرن لینے اور غلط بیانی کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ پھر امریکی اور پاکستانی اخبارات میں عمران خان کو طالبان خان اورٹرمپ کو ٹرمپ خان کہا جانے لگا۔ ٹرمپ نے دو دفعہ مواخذے کی تحریک کا سامنا کیا تھا اور دونوں دفعہ بچ گئے تھے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے قومی اسمبلی توڑ دی لیکن سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کردی اور خان صاحب تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ فارغ ہوگئے۔ ٹرمپ کی عمر 78سال اور عمران خان کی عمر 72 سال ہے لیکن دونوں کو نوجوانوں کی زیادہ حمایت حاصل ہے کیونکہ نوجوان ان دونوں کو غیرروایتی سیاستدان سمجھتے ہیں۔ نوجوانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ٹرمپ نے تین شادیاں کیں اور خان نے بھی تین شادیاں کیں۔ نوجوانوں کو یہ پروا بھی نہیں کہ 2014ء میں خان کے حامیوں نے پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد پر اور 2021ء میں ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ عمران خان اورٹرمپ دونوں کیخلاف پرانے روایتی سیاستدانوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے، دونوں کےساتھ دھاندلی ہوئی اور یہ دونوں اپنے اندھے پیروکاروںکی ضد بن چکے ہیں۔

غور کیا جائے تو ٹرمپ اور عمران خان کی اصل طاقت ان کے مخالفین کی غلطیاں اور ناقص کارکردگی ہے۔ یہ دونوں جب اقتدار میں تھے تو میڈیا سے ناراض رہتے تھے۔ دونوں نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور میں نے ان دونوں پر خوب تنقید کی۔ جب یہ دونوں اقتدار سے نکالے گئے تو ان پر بغیرسوچے سمجھے الٹے سیدھے مقدمات درج کئےگئے۔ میڈیا سے توقع کی گئی وہ ان جھوٹے مقدمات کا دفاع کرے اور دونوں کا بلیک آئوٹ کر دے۔ آزاد میڈیا کبھی جھوٹے مقدمات اور سنسرشپ کی حمایت نہیں کرسکتا لہٰذا وہی صحافی جو پہلے ٹرمپ اور عمران خان پرتنقید کرتے تھے انہوں نے ان دونوں کے ساتھ ہونے والے نارواسلوک پرتنقید شروع کردی۔ وہ جج صاحبان جن پر ماضی میں ٹرمپ اور عمران خان کے حامی تنقید کرتے تھے انہی ججوں نے ان دونوں رہنمائوں کوریلیف دینا شروع کر دیا۔ پہلے ٹرمپ اور عمران خان پر الزام تھا کہ وہ نفرت کی سیاست کرتے ہیں آج یہ دونوں اپنے مخالفین کی اندھی نفرت کا نشانہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح ان دونوں کا جسمانی وجود مٹاکر دونوں کی مقبولیت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ دھونس، دھاندلی اور قتل و غارت کے ذریعہ پاپولر لیڈر شپ کا جسمانی وجودتو مٹایا جاسکتا ہے لیکن یہ کسی ریاست یا ادارے کی طاقت کا نہیںبلکہ کمزوری کا ثبوت ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے بارے میں فیصلےکو کوئی سو دفعہ سیاسی فیصلہ کہے لیکن تاریخ میں یہ فیصلہ لکھنے والےآٹھ جج جسٹس منیر کی روایت کے باغی کہلائیں گے۔ عدت میں نکاح کے مقدمے میں بری ہو جانے کے باوجود عمران خان کو رہا نہیں کیا جاتا تو اس سے ریاست مضبوط نہیں ہوگی۔ جہاں آئین و قانون مذاق بن جائے وہاں ریاست کو ریاست نہیں سمجھا جاتا کچھ اور سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ اور عمران کا صرف ایک علاج ہے۔ دونوں سے آئین و قانون کے مطابق نبٹا جائے۔ ہو سکتا ہے دونوں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیں اور اگر سبق نہیں سیکھیں گے تو دونوں کا علاج عوام کے پاس ہے۔ عوام نے انہیں سر پر بٹھایا ہے، عوام ہی انہیں گرانے کا حق رکھتے ہیں۔ گالی اور گولی سے نہ ٹرمپ قابو آئےگا اور جھوٹے مقدمات سے عمران خان کی سیاست بھی ختم نہ ہوگی۔ دونوں کو ختم کرنے کےلئے ریاست کو مزید خطرات سے دوچار نہ کیا جائے۔

تازہ ترین