• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رومی ہر عہد اور ہر قوم کے شاعر ہیں۔ تیرہویں صدی سے لے کر اب تک مختلف خطّوں اور قوموں میں اُن کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اپنے انتقال کے سات سو سال بعد بھی وہ اپنے پڑھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اُن کی شہرت کا سورج مکمل آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ اُن کی عظمت کا چاند غروب نہیں ہوا۔ 

یوں کہیے، شہرِ عقل و خرد کی ہر دیوار پر اُن کی حکمت کے چراغ روشن ہیں، جن کی روشنی سے ایک زمانہ فیض پارہا ہے۔ جب ہم رومی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں، تو اُن کی شخصیت ہمیں اپنی جانب اِس طور کھینچتی ہے کہ رفتہ رفتہ ہم اُن کے دائرئہ اثر میں آتے چلے جاتے ہیں اور یہ حق و معرفت کا دائرہ ہے۔ 

یہاں ہمارا سامنا رومی کی شاعری سے ہوتا ہے، جسے دُنیا ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کے نام سے جانتی ہےاور پھر یہ کلام ہمیں مکمل طور پراپنے حصار میں لے لیتا ہے اور اسی حصار میں رہ کر کائناتِ رنگ و بُو کے پُراسرار راز ہم پر افشاء ہوتے ہیں۔ رومی نے پچیس سال کے عرصے میں 70000کےلگ بھگ اشعار کہے، جن میں 26,666 اشعار مثنوی کے ہیں، باقی سب ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ میں شامل ہیں۔ ان کی تین تصانیف :1فیہ مافیہ۔:2 دیوان شمس تبریزاور:3 مثنوی مولانا روم کو شہرتِ عام، بقائے دوام نصیب ہوئی، جب کہ اُن کی معرکتہ الآرا تصنیف، ’’مثنوی روم‘‘ کا شمار دنیا کی 100بہترین کتابوں میں بھی ہوتا ہے۔

وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے اس عظیم مسلمان صوفی شاعر، مولانا جلال الدین رومی کو مسلم دنیا اتنی تفصیل سے نہیں جانتی، جس قدر مغربی دنیا جانتی ہے۔ اُن پر انگریزی میں ہزاروں کتابیں شایع ہوچکی ہیں، جب کہ اُن کی فارسی زبان میں لکھی مثنوی مغرب میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ افغانستان کے شہر بلخ میں 1207ء میں پیداہونے والے اس عظیم صوفی شاعرکے دادا،حسین بلخی، سلجوقی سلطان کے کہنے پربلخ سے اناطولیہ چلے گئے تھے، جو اُس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ 

اِسی نسبت سے آپ رومی کہلائے۔ آپ کے والد، حضرت بہاء الدین اپنے عہد کے نام وَر عالم ِدین تھے۔ مولانا بہاؤ الدین اپنے بیٹے، رومی کو بہت عزیز رکھتے اور انہیں ’’خداوندگار،، کہتے تھے۔ مولانا رومی کی زندگی میں پانچ افراد کی بہت اہمیت رہی ہے۔ ان میں سب سے اوّل نمبر پر اُن کے والد شیخ بہاؤ الدین، دوم، اُستاد برہان الدین محقّق، سوم، دوست اور پیر و مرشد، شمس تبریز، چہارم، صلاح الدین زرکوبی اور پنجم، حسام الدین ہیں۔ ذیل میں ہم ان پانچوں شخصیات کا فرداً فرداً ذکر کریں گے اور دیکھیں گے کہ یہ مولانا کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوئے۔ 

مولانا رومی کی بنیادی سوانح ’’مناقب العارفین‘‘ میں لکھا ہے کہ اُن کے والد، بہاؤ الدین ولد، خُود کو ’’سلطان العلماء‘‘ کہتے تھے، کیوں کہ اُن کے مطابق، انہیں یہ خطاب پیغمبرِ خدا حضرت محمّدﷺ نے خواب میں دیا تھا اور اس خواب کو اُس وقت کے بیش تر علماء نے بہ یک وقت دیکھا تھا۔ مولانا روم کا شجرۂ نسب والد کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور والدہ کی طرف سے حضرت علیؓ سے جاملتا ہے۔

محمّد خوارزم شاہ اپنے دورِ اقتدارمیں بہاؤ الدین کے عقیدت مندوں میں شامل تھا، اکثر اُن کی خدمت میں حاضر رہتا۔ ایک دن خوارزم شاہ، مولانا بہاؤ الدین کے پاس گیا، تو وہاں ہزاروں افراد کا مجمع تھا۔ بادشاہوں کو اپنی سلطنت میں کسی شخص کی اس قدر مقبولیت کبھی گوارا نہیں ہوتی۔ اس موقعے پر امام فخر الدین رازی بھی خوارزم شاہ کے ساتھ تھے۔ شاہ کو اُن سے بھی خاص عقیدت تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب خوارزم شاہ، بہاؤ الدین کی خدمت میں حاضر ہوتا، تو امام صاحب بھی ہم رکاب ہوتے۔ 

بہاؤ الدین اپنے وعظ میں فلسفۂ یونانی اور فلسفہ دانوں کی بھرپورمذمّت کرتے اور فرماتے ’’جن لوگوں نے کتبِ آسمانی کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے اور فلسفیوں کی تقویمِ کہن پر جان دیتے ہیں، وہ نجات کی کیا اُمید کرسکتے ہیں۔‘‘ امام رازی کو یہ ناگوار گزرتا، لیکن خوارزم شاہ کی وجہ سے کچھ کہنے سے احتراز کرتے۔ 

بہرحال، یہاں حد سے زیادہ لوگوں کو دیکھ کر خوارزم شاہ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا ’’کس غضب کا مجمع ہے؟‘‘امام صاحب ایسے موقعے کے منتظر رہتے تھے۔ فوراً فرمایا ’’ہاں، اگرابھی سے اس کا تدارک نہ کیا گیا، تو پھر مشکل پڑ سکتی ہے۔‘‘ خوارزم شاہ، امام صاحب کا اشارہ سمجھ گئے اور خزانہ شاہی اور قلعے کی کنجیاں بہاؤ الدین کے پاس یہ کہہ کر بھجوادیں کہ’’ اسبابِ سلطنت میں صرف یہ کنجیاں رہ گئی ہیں، وہ بھی حاضر ہیں۔‘‘

مولانا بہاؤ الدین معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے اور فرمایا کہ’’ اچھا! جمعے کے وعظ کے بعد یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘‘اور پھر اپنے دیئے ہوئے قول کے مطابق، وہاں سے روانہ ہوئے، تو روانگی کے وقت تین سو بزرگ بھی اُن کے ساتھ تھے۔ جب خوارزم شاہ کو اُن کی روانگی کا علم ہوا، تو بہت پچھتایا اور اپنے کیے پر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا۔ فوراً حاضر ہوکر معافی کا خواست گار ہوا۔ بڑی منّت سماجت کی کہ واپس لوٹ آئیں، مگر وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ 

سفر کے دوران راستے میں جہاں سے بھی گزر ہوتا، وہاں کے تمام امراء و رؤساء زیارت کے لیے چلے آتے۔ جب یہ قافلہ بغداد سے گزرا، تو نیشاپور میں مولاناکی ملاقات مشہور صوفی شاعر اور بزرگ فرید الدین عطّار سے ہوئی۔ (نیشاپور آج ایران کے صوبے خراسان میں واقع ہے) عطار نے رومی کی روحانی حقیقت کو فوراً پہچان لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ بازار میں اُس وقت کے رواج کے مطابق بیٹا پیچھے اور باپ آگے آگے جارہا ہے، تو انہوں نے برجستہ کہا،’’ایک دریا کے پیچھے سمندر چلا آرہا ہے۔‘‘ 

اس موقعے پر عطار نے رومی کو اپنی کتاب ’’اسرار نامہ‘‘ عطا کی۔ جسے ’’پندنامہ عطار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب روحانیت، روشن خیالی اور بصیرت کا خزینہ کہی جاتی ہے۔ جس میں دنیا سے بے رغبتی اور روحانی اسرار و رموز درج ہیں۔ رومی اُس وقت بمشکل تیرہ برس کے ہوں گے۔ وہ عطار کی شخصیت سے مرعوب ہوئے اور ’’اسرارنامہ‘‘ سے استفادے کے بعد عطار کی بہت سی حکایات اپنی کتاب میں درج کرلیں۔

رومی اپنے والد کے ساتھ بلخ سے نیشا پور، بغداد اور شام سے ہوتے ہوئے مکّہ مکرمہ پہنچے۔ وہاں سے فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد زنجان چلے گئے۔ زنجان سے لارندہ کا رُخ کیا۔ یہاں قیام کے دوران اٹھارہ برس کی عُمر میں اُن کی شادی گوہر خاتون سے ہوئی۔ لارندہ میں پانچ سال قیام کے بعد رومی اپنے والد کے ساتھ قونیہ آگئے۔ دو سال بعد اُن کے والد کا انتقال ہوگیا۔ یوں سلطان العلماء کی جانشینی کا بوجھ صرف چوبیس برس کی عمر میں اُن کے کاندھوں پر آن پڑا، جو بہ یک وقت ایک سعادت بھی تھی اور آزمائش بھی۔ ان حالات میں رومی کی زندگی میں برہان الدین محقّق ترمذی کا بڑا اہم کردار رہا، جنھیں اُن کے والد نے بیٹے کی تعلیم کے لیے مقرر کیا تھا۔

اب تک رومی مقررہ نصاب کے ساتھ علم و فضل کے دائرے میں بہت کچھ حاصل کرچکے تھے۔ برہان الدین اپنے مرشد کی وفات کے بعد قونیہ پہنچے اور شاگرد کو مادّی علوم میں والد سے بھی کامل پایا۔ اب شاگرد کو علمِ باطنی کا ذخیرہ منتقل کرنا تھا۔ یہ کامل سپردگی اور غیرمشروط عقیدت کا عمل تھا، جو نو برس پر محیط تھا۔ برہان الدین، رومی کو کندن بنانا چاہتے تھے، تاکہ وہ اپنے والد، سلطان العلماء کےدرست جانشین ثابت ہوں۔ یہی بات رومی کو بعد میں حلب اور دمشق لے گئی۔ 

تیرہویں صدی عیسوی میں یہ دونوں شہر، علوم و فنون کے اہم مراکز اور تب تک منگولوں کے حملوں سے محفوظ تھے۔ حلب میں رومی نے کمال الدین جیسے عالم سے کسبِ فیض کیا، تو دمشق میں شمس تبریز سے ملاقات نے اُن کی زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ شمس تبریز، صوفی، درویش منش، کامل ولی اللہ اور بابا کمال الدین جندی کے مرید تھے۔ 

مولانا روم کے ایک خاص مرید سپہ سالار کے مطابق، ’’شمس تبریز نے دُعا کی تھی خدایا!کوئی ایسا شخص عطا کر، جو میری صحبت کا متحمّل ہوسکے۔ اس پر انہیں غیبی اشارہ ہوا کہ قونیہ جائیں، وہاں ایک حق شناس موجود ہے۔‘‘ زین العابدین شروانی نے مثنوی کے دیباچے میں لکھا ہے کہ، ’’شمس تبریز کو اُن کے پیر، بابا کمال الدین جندیؒ نے حکم دیا کہ روم جاؤ، وہاں ایک دل سوختہ ہے۔ اُسے گرم کر آؤ۔‘‘

کسی عظیم ہستی کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہو، تو اُس کے بارے میں کچھ ایسے قصّے، کہانیاں زبان زدِ عام ہوجاتی ہیں، جس سے وہ شخصیت افسانوی کردار لگنے لگتی ہے۔ رومی اور شمس کی محبّت سے بھی ایسی بہت سی روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت ہے کہ ایک دن گرمیوں کی صبح مولانا معمول کے مطابق حوض کے پاس درس دے رہے تھے۔ وہاں ایک خوانچہ فروش اپنے اطراف اور ماحول سے بیگانہ، حلوا بیچتا ہوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔

مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ ان کے سامنے کتب کا بڑا ذخیرہ موجود تھا۔خوانچہ فروش نے تعجب سے پوچھا ،’’ یہ سب کیا ہے؟‘‘ مولانا نے بڑے تحمّل سے کہا، ’’یہ وہ کچھ ہے، جو تیری سمجھ سے ماورا ہے۔‘‘ خوانچہ فروش نے یہ سنتے ہی کتابیں اُٹھا کر حوض میں پھینک دیں۔ مولانا اس کی حرکت پر ششدر رہ گئے، نہایت افسوس کے عالم میں کہا ’’یہ تم نے کیا کیا؟ ان کتابوں میں ایسے نادر نکتے موجود تھے جو، اب ملنا محال ہیں۔‘‘ 

خوانچہ فروش نےاُن کی طرف بے نیازی سے دیکھا اور اُسی وقت پانی میں ہاتھ ڈال کر سب کتابیں باہر نکال کے رکھ دیں۔ حیرت انگیز طورپر وہ ساری کتابیں اُسی طرح خشک تھیں۔ مولانا نے انتہائی حیرت سے پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ خوانچہ فروش نے جواب دیا، ’’یہ سب وہ کچھ ہے، جو تیری سمجھ میں نہیں آسکتا۔‘‘یہ کہہ کر وہ وہاں سے لوٹ گیا۔ دراصل، وہ خوانچہ فروش ہی شمس تبریز تھے، جو مولانا کی جھیل جیسی پُرسکون زندگی میں ہلچل مچا کر چلے گئے۔

شمس کی آمد سے قبل رومی، جو خود بلند روحانی سطح پر پہنچ چکے تھے، ہر دم مضطرب اور بے قرار رہا کرتے۔ وہ ایک ایسی کامل روحانی شخصیت کے انتظار میں تھے، جو اُن کے اندر کا خلا پُر کرکے اُن مخفی رازوں سے پردہ اُٹھا دے، جو ابھی تک صاحبِ بصیرت ہونے کے باوجود اُن کی نظروں سے اوجھل تھے۔ شمس کا ملنا، رومی کے لیے جہانِ تازہ کی نمود تھی۔ وہ اُن کے شیدائی ہوگئے، یہاں تک کہ درس و تعلیم کے عمل سے بھی بے گانہ ہوگئے۔ اس سے رومی کے طلبہ، عقیدت مندوں اور اہلِ خانہ کو بڑی مایوسی ہوئی۔

رومی تو اپنے علم اور زہد کی وجہ سے شہرت پاچکے تھے، اُن کے عقیدت مندوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، اس لیے لوگوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا کہ ایک محترم و معزز عالمِ دین، شمس کو اپنا مرشد مان کر دیوانہ ہوچکا ہے، اور اب اسلامی ضابطوں کا بالکل پابند نہیں۔ رومی پہلے موسیقی کے خلاف تھے، اب اُس کے گرویدہ ہوچکے تھے، وجد میں آکر گھنٹوں رقص کرتے۔ 

یہ انقلاب غیرمعمولی تھا۔ رومی کے مداح اس صُورت حال سے آزردہ تھے اور انہیں شمس پر بے تحاشا غصّہ تھا کہ جو ایک طرف تو اُن کی زندگی کے لیے وبالِ جان بن گئے تھے، دوسری طرف رومی اُن کی ہر بات مانتے۔ شمس کا انداز بھی تحکمانہ ہوتا، جیسا کہ ایک روایت کے مطابق، وہ خود کہتے ہیں،’’شمس الدین پہلے پہل آیا، تو میری محبّت و عقیدت کو دیکھتے ہوئے مجھے گفتگو سے پرہیز اور زبان بند رکھنے کا حکم دیا، چناں چہ مَیں نے لوگوں سے میل جول ترک کردیا۔‘‘

بہرحال، شمس کی مخالفت جب حد سےبڑھی تو رومی کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا کہ کہیں وہ اُنھیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں، اس لیے انہوں نے پہلے ہی شمس سے کہنا شروع کردیا کہ ’’آپ ان باتوں کی ہرگز پروا نہ کریں۔‘‘ رومی خود کومجبورِ محض پاتے اور شمس سے استدعا کرتے، ’’آپ میرے گھر کی روشنی ہیں۔ آپ مجھے چھوڑ کر نہ جائیے گا۔‘‘ (جاری ہے)