• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی موجود پارلیمان بلاشبہ سخت متنازعہ، اخلاقی بنیاد اور (ایٹ لارج) حقیقی عوامی مین ڈیٹ سے محروم ہے۔ اس کی بمطابق آئین اور 8فروری کے عام انتخابی نتائج سے ہی تشکیل متعلق سپریم کورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ یقیناً فوری، گہرے اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس کا فوری مثبت نتیجہ تو نکل بھی آیا، ایسے کہ: سپریم کورٹ کا اندرونی بڑھتا بحران تھم گیا۔ اگرچہ فیصلہ ہے تو پارلیمان کی بمطابق آئین صورت گری سے متعلق، لیکن اس کا پہلا اثر خود ملکی بحران زدہ اور عوام کا اعتماد کھوتی اعلیٰ ترین عدلیہ، سپریم کورٹ آف پاکستان پر پڑا ہے۔ حکومتوں میں تو اصلاحات اور باہمی متفقہ قانون سازی اور نظام عدل و انصاف سے مکمل سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی صلاحیت نے جنم ہی نہیںلیا،بس وکلا تنظیموں، سیاست دانوں اور ماہرین قوانین اور جج صاحبان کی طرف سے ہر دور میں اس کی شدت سے ضرورت کا اعتراف اور اظہار ہی ہوتا رہالیکن کردار اور ذمہ داری کے حوالے سے کچھ بھی تونہ کیا گیا، نتیجتاً فراہمی انصاف کا معیار و رفتار قیام پاکستان سے تادم 76 سال میں مایوس ترین درجے پر رہی، جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اب تو زیر نظر فیصلہ آنے تک قوم کو شدت سے مایوس کرنے والی جج صاحبان کی مکمل غیر پیشہ ورانہ سیاسی نوعیت کی تقسیم سے یہ درجہ اپنی انتہا پر پہنچ گیا تھا۔ اس کا بدترین اثر براہ راست ملک کو شدت سے مطلوب سیاسی و معاشی استحکام پر پڑا اور پڑ رہا ہے، تاہم دوسال سے سخت معتوب ملکی سب سے بڑی ثابت شدہ قومی پارلیمانی قوت تحریک انصاف کی بے مثال قانونی جنگ کے نتیجے میں عدالتی سیٹ کے بری طرح ڈسٹربڈ رویے کو مطلوب کے مطابق سنبھالنے کا موقع ملا تو سپریم کورٹ نے ازخود، خود کو سنبھالنے سنوارنے کا کام یہ ہی زیر بحث فیصلہ دے کر کیا۔ سو الیکشن کے بعدبھی اور زیادہ سیاسی عدم استحکام بڑھنے کی تشویش تھم کر کم ہونے کا آغاز ہوا۔ اسی مثبت لیکن سست عمل کو بڑا سہارا تب بھی ملا تھا جب قوم کے الیکشن کے فوری انعقاد کے پر زور مطالبے اور تقاضے سے سخت بیزار الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو ایک سماعت میں چیف جسٹس نے 8 فروری کی تاریخ کو عام انتخاب کی حتمی تاریخ قرار دے کر الیکشن کے انعقاد کا پابند کردیا تو اسی کے مطابق انتخاب ہوا، لیکن ہوا تو اس کے نتائج کو الیکشن کمیشن کی کھلی غیر آئینی اور حلف سے متصادم معاونت سے جس طرح نگران حکومت وقت نے سبوتاژ کیا اس نے پاکستان میں ڈگمگاتے سیاسی و معاشی عمل میں بڑا بگاڑ پیدا کیا۔ سیاسی آلودگی میں اضافہ ہوا۔فیصلے کا اہم ترین پہلو جس پر فاضل فل کورٹ بنچ کے تمام ہی جج صاحبان متفق ہوئے، یہ ہے کہ بال کی کھال نکالنے والی سماعت کے بعد انہوں نے خواتین اور اقلیتوں کی بڑی تعداد میں نشستیں، ہاری جماعتوں سےبنائی پارلیمان اور حکومتی ٹولے میں ریوڑیوں کی طرح باٹنے کا ذمے دار الیکشن کمیشن کو قرار دیا۔ جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی انتہائی غلط تشریح کرکے اس دیدہ دلیری کا مرتکب ہوا۔ یوں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ انتخابی دھاندلی میں موجود متنازعہ ترین الیکشن کمیشن اس دھاندلی کا مکمل ذمے دار ٹھہرایا گیا، وگرنہ ہر الیکشن میں ہاری جماعتوں یا امیدواروں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے بطور مہرہ استعمال ہونے کے الزامات تو ہر الیکشن کمیشن پر لگتے رہے، لیکن عدلیہ کی طرف سے ذمے داری کبھی کسی کمیشن پر نہ ڈالی گئی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آج کے الیکشن کمیشن نے اپنے بنیادی آئینی فریضےاور حلف سے اس حد تک گریز کیا کہ انتخابات کے انعقاد کو مسلسل ٹالنے، تحریک انصاف کے رہنما اور امیدواروں سے مکمل جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے پھر انتخابی مہم میں ان کے خلاف انتظامیہ کی سفاکانہ اور قطعی غیر قانونی کارروائیوں پر چپ سادھے رکھنے کا رویہ قانوناً مکمل قابل گرفت رہا۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بڑا تاریخ ساز ہے کہ اس سے عوام کے ہتھیائے گئے مین ڈیٹ کی بازیابی جزواً ہی بحال نہیں ہوئی کہ تحریک انصاف کو کھل اور جتا کر پارلیمانی پارٹی تسلیم کیا گیا جب کہ اس کے سیاسی مخالفین الیکشن میں اس کی عظیم تر کامیابی کے بعد بھی اس پر پابندی کی خواہش اور امکان کا اظہار کرتے جا رہے تھے۔ جس سے کروڑ ہا ووٹرز میں شدید مایوسی پیدا ہوئی۔ الیکشن کمیشن کی مسترد کی گئی تشریح سے تحریک انصاف ہی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی حق دار نہ ٹھہرائی گئی بلکہ سنی کونسل کی جگہ اس کے جیتے اراکین اسمبلی کی بنیاد پر اس کی پارلیمانی حیثیت بھی بحال ہوگئی۔ اب یہ ہی نشستیں کھونے کے حوالے سے ن لیگ اور دوسری جماعتوں کی پارلیمانی حیثیت مزید کمزور ہو جائے گی۔ یوں بری طرح ڈسٹرب ہوا پارلیمانی اور سیاسی عمل کچھ سیدھی سمت میں آگیا اور مزید آئے گا، جو یقیناً سیاسی استحکام کا سبب بنے گا۔ سب سے بڑھ کر فارم 45 کی بجائے فارم 47 سے اسمبلی اور حکومت کی تشکیل کے خلاف جو زیر التوا مقدمات اور انتخابی عذر داریاں تحریک انصاف کے جیتے امیدواروں کو ہارا اور ہاروں کو جیتا قرار دینےپر سماعت کی منتظر ہیں۔ فل کورٹ بنچ کا فیصلہ، انہیں جلدی نپٹانے اور بمطابق آئین و قانون فیصلوں میںحائل رکاوٹوں کو ختم کرنے اور رویوں میں تبدیلی لائے گا۔ یہ سب کچھ حکومت کھونے کے بعد مسلسل زیر عتاب جماعت تحریک انصاف کی بے مثال قانونی جدوجہد کے نتیجے میں ہوا اس سے ایجی ٹیشن اور دھرنا و جلسے و جلوس کی ترجیح تبدیل ہو کر اولیت قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے کورٹ آف لا سے رجوع کرنے کی طرف ہو جائے گی۔ سفاکی اور حکومتی لا قانونیت جیسے ہتھکنڈوں حربوں کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔ یہ سب نتائج گہرے ہیں، جس سے ذمے دار، غیر جانبدار، آزاد عدلیہ و الیکشن کمیشن، قانون کی پابند انتظامیہ ممکن ہوگی۔ سب سے بڑھ کر ووٹ اور ووٹر کی عزت و تکریم اور آئین و قانون کی بالادستی جیسے دور رس نتائج نکلنے کا یقین اور مواقع بذریعہ آزاد وغیر جانبدارعدلیہ کے قیام کے امکانات کا گراف بلند ہوا ہے۔ اہم ترین یہ بھی کہ سپریم کورٹ نے اپنی معتبر حیثیت کے مطابق آئین کے آرٹیکل 187 سے راستہ نکال کر انصاف کی فراہمی کا ہما گیر فیصلہ کیا ہے جو ’’مکمل انصاف‘‘ حاصل کرنے اور مہیا کرنے کا آئینی راستہ ہے۔ جس نے اس دلیل کو بودا کردیا کہ فیصلے میں وہ مل گیا ہے جو مانگا نہیں تھا۔

تازہ ترین