• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلطان احمد خان 1938 ء میں ٹونک (راجستھان ) میں پیدا ہوئے۔مخمور سعیدی کے نام سے اردو شعر میں نام پایا۔ 2010ء میں انتقال ہوا۔ آج کے کالم کا عنوان مخمور صاحب کے ایک شعر سے اخذ کیا ہے۔ پڑھنے والی آنکھ مگر پوچھتی ہے کہ آج کے دن کی کیا تخصیص ہے۔ گزرے وقتوں میں اخبارنے کس روز ہمیں سبز گھاس پر اڑتی تتلیوں کی خبر دی تھی۔ ہمت کر کے آج کا اخبار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ بنوں چھائونی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے۔ وطن کی حفاظت کا حلف اٹھانے والے آٹھ جوان کھیت رہے ہیں۔ تحریک طالبان کے دس دہشت گرد حملہ آور مارے گئے ہیں۔ اخبار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس وقوعہ کی خبر اہل وطن تک پہنچنے میں ٹھیک چوبیس گھنٹے لگے ہیں۔ دوسری خبر یہ ہے کہ7 اکتوبر 2023 ء سے غزہ میں جاری لہو کے کھیل کی خبر بالآخر تحریک لبیک تک پہنچ گئی ہے اور مذکورہ گروہ نے حسب روایت فیض آباد میں دھرنا دے رکھا ہے۔آئی زنجیر کی آواز ،خدا خیر کرے۔ تیسری خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے 3 اپریل 2022 ء کو قومی اسمبلی ، ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر میں ہونے والے اقدامات کی بنیاد پر حکومت کی طرف سے تحریک انصاف پر پابندی کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان تینوں خبروں میں ایک نادیدہ تعلق پایا جاتا ہے۔ آئیے آپ کو 1958 ء میں لیے چلتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد ہی کا قضیہ تھا۔23ستمبر 1958 ء کو اسمبلی میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی جس میں ڈپٹی اسپیکر شاہد علی ہلاک ہو گئے۔ بلوچستان میں خان آف قلات نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ 6اکتوبر 1958 ء کی صبح خان قلات کو فوج سے مسلح تصادم کے الزام میں گرفتار کر کے لاہور پہنچا دیا گیا۔ اس دوران آزاد کشمیر میں سردار ابراہیم نے اپنے حامیوں سمیت لائن آف کنٹرول پار کر کے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا۔ 7 اکتوبر 58 ء ہی کو خان قیوم خان نے جہلم سے گجرات تک بتیس میل لمبا جلوس نکالا۔ بظاہر ان تمام واقعات کا باہم کوئی تعلق نہیں تھا لیکن 8اکتوبر کو ملک میں مارشل لا نافذ ہونے کے بعد نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔اہل سیاست ، اہل صحافت، اہل دانش اوراہل عدالت نے بیک آواز ’گرفت پنجہ افواج ‘کا خیر مقدم کیا۔ یاد رہے کہ رئیس امروہوی نے واوین میں لکھی اس ترکیب سے مارشل لا کا مادۂ تاریخ نکالا تھا۔

ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ محض دستور کی شق 17 کا معاملہ نہیں۔ اس سیاسی جماعت نے فروری 2024 ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ پارلیمانی نظام میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت پیش آتی ہے اور معلق پارلیمنٹ میں ایسی اکثریت کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتحاد بنائے جاتے ہیں۔ محترم عمران خان کی ذات اقدس عظمت کے اس مقام پر فائز ہے جہاں کسی دوسری سیاسی جماعت سے رابطہ کرنا ان کے شایان شان نہیں البتہ مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل جیسی آرائشی جماعتوں سے انضمام اور ادخال میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اپریل 2022 ء میں پی ڈی ایم حکومت نے دستور کی شق 95 کی کھلی خلاف ورزی اور عدالت عظمیٰ ہی کے مطابق قومی اسمبلی توڑنے کے خلاف دستور اقدام پر تحریک انصاف کے خلاف ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا۔ 9 مئی 2023 ء کے واقعات پر سازش کے حقیقی کردار کٹہرے میں کیوں نہیں لائے گئے؟ اس کے جواب میںاس وقت کے کسی صاحب عدل کے ’مائل بہ کرم‘ ہونے کا جواز دیا جاتا ہے۔ عزیزو ! اگر انصاف کی زنجیر ہلاتے ہوئے قاضی القضاۃ کا رجحان طبع ہی مدنظر رکھنا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ نظام عدل کا انہدام ہو چکا۔ عطااللہ تارڑ کا اعلان سیاسی سرمائے کے افلاس اور حکومتی عملداری کے مفلوج ہونے کا اعتراف ہے۔

سیاسی جماعتوں پر پابندی کا سلسلہ 50 کی دہائی میں شروع ہوا تھا ۔ 25مارچ 1971 ء کو یحییٰ خان نے بھی عوامی لیگ پر پابندی لگائی تھی ۔ بھٹو صاحب نے نیپ کو خلاف قانون قرار دے کر حیدر آباد ٹریبونل قائم کیا تھا۔ دور کیوں جائیں۔ 14 اپریل 2021ء کو عمران حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگائی تھی جو 7 نومبر 2021ء کو اٹھا لی گئی ۔ گزشتہ بیس برس میں درجنوں مذہبی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ۔کیا یہ تنظیمیں ختم ہو گئیں؟ ہماری تاریخ میں صرف ایک سیاسی جماعت پر مؤثر پابندی لگائی گئی ۔ جولائی 1954 ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو خلاف قانون قرار دیا گیا تھا۔ ایوب خان نے جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگائی تھی ۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ملک کے منظرنامے سے غائب ہو گئی اور جماعت اسلامی آج بھی سیاست میں سرگرم ہے۔ ان دو جماعتوں پر پابندی کے دو مختلف نتائج میں ایک باریک نکتہ کارفرما ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے خلاف کارروائی ریاست کے وسیع تر عزائم کی آئینہ دار تھی اور جماعت اسلامی ان عزائم کو آگے بڑھانے میں عندالطلب آلہ کار تھی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 19دسمبر 2017ء کو سینٹ کے بند اجلاس میں تحریک لبیک کی پشت پناہی کا اقرار کیا گیا ۔ نومبر 2021 ء میں جس ذی وقار شخصیت نے ’حکومت ‘کی طرف سے مفتی منیب الرحمن اور عقیل ڈھیڈی سے مذاکرات کر کے تحریک لبیک کے مطالبات تسلیم کیے ، وہی صاحب تھے جنہوں نے ٹھیک چار برس پہلے تحریک لبیک کی تولید میں اپنا کردار تسلیم کیا تھا۔ تحریک لبیک کی انتخابی تاریخ 16 ستمبر 2017 ء کو لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ضمنی انتخاب سے شروع ہوتی ہے۔ تب مسلم لیگ نواز کی ابتلا کا زمانہ تھا۔ لمحہ موجود میں پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف پر پابندی کے اعلان سے فاصلہ اختیار کیا ہے ۔بظاہر یہ اصولی مؤقف ہے لیکن اصول، ایک مدت ہوئی ،دفن ہو چکے اور قبروں پر گھاس اگ چکی ہے۔ عافیت اخبار نہ دیکھنے ہی میں ہے۔اماوس کی رات میں چھائی گہری دھند میں خبر نہیں پڑھی جا سکتی ۔واقعہ البتہ سب کو معلوم ہو جائے گا۔

تازہ ترین