• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیلی ویژن دیکھنا تو میںنےچھوڑ دیا ہے مگر یہ بھنبھناتا ہوا چھوٹا ساموبائل بہت ستاتا ہے ۔اکثر رات کو نیند حرام کر دیتا ہے۔ صرف میری نہیں، تقریباً اسی فیصد پاکستانیوں کی، کوئی سیاسی کارکن ہے یا تاجر،، کوئی مل مزدور ہے یا سرکاری ملازم، کوئی دہقان ہے یا زمیندار، کوئی طالب علم ہے یا کسی بھی مذہب کا عالم ،سب اس موبائل سے پریشان ہیں ۔ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر سنادیتا ہے کہ آدھی رات کا جاگا صبح تک سو نہیں سکتا۔ یہ خبر تو میں نے دیکھنا ہی چھوڑ دی ہے کہ بانی پی ٹی آئی رہا کر دئیے گئے، ان کا قافلہ زمان پارک کی طرف رواں دواں ہے۔ شروع شروع میں جب میں ایسی کوئی خبر دیکھتا تھا تو جلدی سے روزنامہ جنگ کی ویب سائیٹ کھولتا تھا مگر وہاں ایسی کوئی خبر نہ دیکھ کر تمام خوشیوں پر اوس پڑ جاتی تھی۔ اس خبر کو بھی میں نے سوشل میڈیا پر اسی انداز میں دیکھا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر جب روزنامہ جنگ کی ویب سائیٹ کھولی تو سچ مچ حیران بلکہ پریشان ہو گیا۔ بات پریشانی سے بڑھ کر خوف زدگی تک پہنچ گئی کہ اب کیا ہو گا اور پھر وہ معروف جملہ یاد آ گیا کہ آسمان جب کسی کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے عقل چھین لیتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ پچیس کروڑ کیوں مجبور و مقہور ہیں کہ چار لوگوں کو غلط فیصلوں سے روک نہیں سکتے۔ رات بھر طرح طرح کے طریقے سوچتا رہا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ حقیقی عوامی نمائندے عوام کی منشا کے مطابق فیصلے کرنے لگیں۔ فارم سینتالیس کے فیصلوں سے نجات حاصل ہو۔ سول حکمرانی کا دور پلٹ آئے لیکن طاقت ور خلائی مخلوق زمین پر اترنے سے باز نہیں آ رہی اور ہم بے چارے زمیں زاد حیران ہیں کہ اپنے حقوق کیسے واپس لیے جائیں۔ امیر، غریب، ادنیٰ، اعلیٰ، بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد کوئی بھی موبائل سے محفوظ نہیں۔ سوائے ہمارے محافظوں کے، جن پر پابندی ہے کہ وہ سمارٹ فون اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ہاں تو ذکرِ خیر ہو رہا تھا فیصلہ سازوں کا، اہل حکم پر اثر انداز ہونے کی عوامی کوششیں موضوعِ بحث تھیں۔ میں کہہ رہا تھا کہ عوام نے ان کے خلاف ایجی ٹیشن میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی۔ الیکشن میں ہر شخص نے اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق اس کا بھرپور اظہار کیا اور فیصلہ سازوں کو بتایا کہ ہم کیا چاہتے ہیں مگر انہوں نے کوئی پروا نہ کی، الٹا فارم سینتالیس کا گنڈاسہ نکال لیا اور جو جو زد میں آیا اسے ڈھیر کر دیا۔ بیچارے عوام نیند سے چونک کے اٹھے ہیں اور گھبرائی ہوئی آنکھیں مل مل کر اپنے نمائندوں کو دیکھتے ہیں۔ جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف نے جب مارشل لا لگایا تو عوام نے کہا کہ مارشل لا ملک کی ترقی کو روک دیتا ہے، ملک زوال کی طرف چلا جاتا ہے مارشل لا کسی صورت میں قبول نہیں۔ تحریکیں چلائیں، اس کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا حتیٰ کہ اردو شاعری میں علامت نگاری کو عروج بھی انہی مارشل لائوں کے دور میں ملا۔ بھٹو پھانسی پر جھول گیا تو شاعروں نے کہا ’’تُو جدا ایسے موسموں میں ہوا۔ جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے‘‘۔ اور اب کہہ رہے ہیں ’’مانا میرے سورج کو نظر بند کیا ہے، کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے، جسموں کیلئے تم نے اٹھائی ہیں فصیلیں، بتلائو کہ احساس کا در بند کیا ہے‘‘ خیر اس زمانے میں ہر برائی کا الزام مارشل لا پر عائد کیا گیا۔ ملک بھر میں اس سرے سے اس سرے تک لوگ شور مچاتے رہے کہ مارشل لا قبول نہیں۔ آئین بحال کیا جائے، حقیقی جمہوریت واپس لائی جائے۔ فیصلہ سازوں نے مارشل لا ختم کر دئیے، جمہوریت بحال ہو گئی مگر کیا یہ جمہوریت ہے یا مارشل لا نے جمہوریت کا فرغل پہن لیا ہے۔ بظاہر تو حکومت نون لیگ کی ہے، پیپلز پارٹی جیسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت اس کی اتحادی ہے مگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ امریکی کانگریس نے جو قرارداد پاس کی یا یو این او نے جو کچھ کہا وہی درست ہے۔ صورتحال خاصی عجیب و غریب ہو چکی ہے اس وقت ملک پر جس شخص کی حقیقی حکومت ہے۔ اس کا پایہ ِتخت اڈیالہ جیل ہے۔ صدر ہائوس یا وزیر اعظم ہائوس میں قیام پذیر لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ اپنے پایہ ِ تخت سے باہر نکل آیا تو وہ کہاں جائیں گے۔ صرف اسلام آباد نہیں راولپنڈی بھی اس حوالے سے پریشان ہے۔ ایک اور عجیب بات ہمارے ملک میں یہ ہے کہ لوگ ملازمتیں مکمل ہونے پر ریٹائر ہونے کیلئے بالکل تیار نہیں ہوتے۔ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ اس کی ایکس ٹینشن ہو جائے۔ اسے دوچار سال اور نوکری کرنے کا موقع مل جائے۔ میں نے کوئی خاصی نوکری کبھی نہیں کی مگر ملازموں سے پوچھا ہے کہ بتائو یار ملازمت میں ایسا کونسا مزا ہے کہ تم چاہتے ہو مرتے دم تک ملازمت جاری رہے، زیادہ تر لوگوں نے صحیح جواب نہیں دیا مگر ایک آدھ بول پڑا کہ ملازمت ہم تنخواہ کیلئے تھوڑی کرتے ہیں۔ ملازمت میں دراصل اوپر کی کمائی بڑی ہوتی ہے۔ نہ بھی ہو تو جو طاقت کا نشہ ہے وہ بڑی چیز ہے۔ میرے خیال میں یہی نشہ اس ملک کو برباد کیے جا رہا ہے۔ پاکستان میں سینکڑوں ریٹائرڈ ملازمین اس وقت بھی کام کر رہے ہیں۔ کسی کو ایکس ٹینشن دے دی گئی ہے تو کسی کو دوبارہ کنٹریکٹ پر رکھ لیا گیا ہے۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال ہے، میں بہت سے ایسے ملازمین کو جانتا ہوں جن کی عمر پینسٹھ سال سے بھی زیادہ ہے مگر وہ کنٹریکٹ پر سرکار کے ملازم ہیں اور اب تو ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی کوشش جاری ہے کہ یہ عمر ساٹھ سال سے بڑھا کر پینسٹھ سال کر دی جائے گی مگر مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے جج صاحبان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہو سکے گا کیونکہ ان کی عمر آئین میں درج ہے اور آئین کی تبدیلی کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہے جو موجودہ حکومت کے پاس تھی مگر پچھلے دنوں منصور علی شاہ نے کاری ضرب لگا دی ہے۔ صدیق جان کے بقول اب کچھ لوگوں کو ریٹائر ہونا ہی پڑے گا۔

تازہ ترین