انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرکے قیامِ پاکستان کو آٹھ دہائیاں بیتنے کو آئی ہیں لیکن روزِاول سے ہمارے کچھ حلقے زور و شور سے یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کو حقیقی آزادی حاصل نہیں ہوئی اور ہم آج امریکہ کے غلام ہیں۔ دو سال قبل پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک وزیراعظم کی تبدیلی کا عمل مکمل جمہوری طریقے سے تکمیل کو پہنچا تو ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے اس کے پس پردہ امریکہ کا ہاتھ ہو ، پارلیمان کے مقدس ایوان اور عوامی جلسوں میں بھی یہ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی گئی کہ قیادت کی تبدیلی کا مقصد امریکہ کی غلامی کو تقویت پہنچانا ہے۔کیا ہم واقعی امریکہ کے غلام ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننےکیلئے ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگست 1947ء سے پہلے ہماری سرزمین برطانوی سامراج کی غلام تھی، تاہم انگریز بہادر کی آمد سے قبل جو حکمران تھے وہ بھی طاقت کے بل بوتے پر ہی راج کرتے تھے، اسکی وجہ یہ تھی کہ اس دور کا مروجہ رواج ہی یہی تھا کہ جس نے اپنے زورِ بازو پر جتنے زیادہ علاقے پر قبضہ جمالیا، وہ اسکی راجدھانی کا قانونی حصہ سمجھا جاتا، اسی اصول پر عمل پیرا یورپی قوتیں چند صدیوں قبل اپنے آبائی ممالک سے نکلیں اور معلوم دنیا کے بڑے حصے پر اپنا تسلط جمالیا۔انسانی تاریخ میں برطانوی سلطنت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسکی وسیع و عریض سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، تاہم دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد برطانوی سلطنت سمٹتے سمٹتے آج کے ننھے منے برطانیہ تک محدود ہوگئی۔اگست 1947ء میں قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی تو عالمی برادری دو بلاکس میں منقسم تھی، ایک طرف سویت یونین تھا تو دوسری طرف انسانی حقوق، جمہوریت ، شخصی آزادی اور ترقی و خوشحالی کے علمبرار امریکہ کی زیرقیادت مغربی بلاک، یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوری جدوجہد سے آزادی حاصل کرنے والے پاکستان کا فطری اتحادی امریکہ ہے جسکا شمار پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین دوست ممالک میں ہوتا ہے، تاہم پاکستان نے آزادی کے بعدامریکہ کی خاطر اصولوں کا سمجھوتہ نہیں کیا، پاکستان مغربی بلاک کا حصہ ضرور بنا لیکن کبھی امریکہ اور مغربی ممالک کی مشرق وسطیٰ کے معاملات میں ہاں میں ہاں نہیں ملائی، تمام تر دباؤ اور ترغیبات کے باوجود فلسطین ایشو پراصولی موقف اپنایا،عرب اسرائیل جنگوں میں صہیونی ریاست کو امریکہ سمیت مغرب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن پاکستانی ہواباز فلسطینیوں کے حق میں دادِشجاعت دیتے رہے، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک میںمغربی سامراجی قوتوں سے آزادی کی جنگ زور پکڑ گئی تو وہاں کےحریت پسند رہنما پاکستانی پاسپورٹ پر عالمی برادری کے سامنے اپنا مقدمہ آزادی لڑتے۔
صدر جنرل ایوب کے دور میں پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے بہت قریب آئے اور دونوں ممالک سے بہت سے اقتصادی و دفاعی شعبوں میں تعاون کو مستحکم کیا ، صدر ایوب نے اپنی سوانح عمری کتاب کا نام فرینڈز ناٹ ماسٹرز رکھ کر ثابت کردیا کہ وہ امریکہ کو آقا نہیں بلکہ دوست کا درجہ دیتے ہیں۔ ملک دولخت ہوجانے کے بعد پاکستان کے پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم قائدعوام ذولفقار علی بھٹو نے مایوس قوم کو ایک نیا ولولہ تازہ دیا، انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ گھانس کھالیں گے لیکن دشمن سے ہار نہیں مانیں گے، بھٹو صاحب کا ایک بہت عظیم کارنامہ جوہری پروگرام کا آغاز تھاجس کیلئے انہوں نے کسی عالمی طاقت کی مخالفت کی پروا نہیں کی۔صدر جنرل ضیاء الحق کا دورِ آمریت بہت سے تنازعات سے بھرپور ہے لیکن انہوں نے اپنے زمانے کی سپرپاور سویت یونین سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا، صدر ضیاء کے دورِ اقتدار میں امریکہ پاکستان کے قریب ضرور آیا لیکن پاکستان میں جوہری پروگرام بھی پروان چڑھتا رہا۔ نوے کی دہائی میں پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کا راج رہا لیکن تمام تر سیاسی چیلنجز کے باوجود ملکی مفاد پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا،محترمہ بے نظیربھٹو کے دورِ حکومت میں ملکی مفاد میں افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا گیا، مئی اٹھانوے میں جب انڈیا نے ایٹمی دھماکے کیے تو وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کا دباؤ خاطر میں نہ لاتے ہوئے جوابی ایٹمی دھماکے کردیے۔صدر مشرف کے دورِ حکومت میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ حوالے کرنے سے معذرت اورامریکی فوجوں کو پاکستانی علاقے میں آپریشن کرنے کی اجازت سے انکار جیسی خبریں میڈیا کی زینت بنیں، بعد ازاں جمہوری وزرائے اعظم کے دور میںامریکہ کے خلاف سلالہ چیک پوسٹ حملے پرسخت احتجاج، نیٹو سپلائی کی بندش اورمشرق وسطیٰ فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ جیسے مختلف اقدامات اٹھائے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دورِ جدید میں غلامی کا تصورمکمل ختم ہوچکا ہے بلکہ گلوبلائزیشن کے زمانے میں تمام ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں، جو قوم زیادہ محنت کرتی ہے، سمجھداری سے کام لیتی ہے، وہ تیزی سے ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرتی ہے اور جوممالک دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں، وہ اپنے قومی اثاثے بھی گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، تاہم یہ قانون ِ فطرت ہے جو ازل سے چلا آرہا ہے اور اس میں کسی کو کوئی رعایت حاصل نہیں۔اوپر بیان کردہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان روزِ اول سے کبھی کسی کا غلام نہیں رہا، تاہم ہمارے حکمران ملکی معیشت کی بہتری کیلئے خودانحصاری پر مبنی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے کہیں زیادہ ہو گئے اور حکمرانوں نے آسان حل آئی ایم ایف اوربھاری سود پر بیرونی قرضوں میں ڈھونڈ لیا۔میری نظر میں آج جو کچھ ہمارے پیارے وطن کے ساتھ ہورہا ہے یہ کسی دوسرے ملک کی پاکستان کو غلام بنانے کی کوشش نہیں بلکہ یہ سب ہماری اپنی کوتاہیوں، نااہلی اور کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔پاکستان کل بھی آزاد تھا، آج بھی ہے اور ہمیشہ آزاد رہے گا۔۔۔!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)