اقبال اور فیض کے شہر اور ضلع سیالکوٹ کی یہ خوبی حیران کرنے والی ہوسکتی ہے کہ یہاں کے لوگوں کی شرح خواندگی پاکستان کے تمام ضلعوں سے زیادہ ہے۔ اخلاقی جرائم کی شرح بھی تمام ضلعوں سے کم ہے اور شائد یہاں کے بے روزگاروں کی شرح بھی تمام ضلعوں سے کم ہوگی، سیالکوٹ کے لوگوں کا امداد باہمی کا جذبہ بھی تمام ضلعوں سے زیادہ ہے جس کے ذریعے انہوں نے نجی سطح پر ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کیا اوراسے نفع بخش ثابت کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا مگر اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہوں گا کہ 24 مارچ کی ابر آلود صبح کو سیالکوٹ کی ایک نواحی بستی ’’اگوکی‘‘ کے پرائمری کی ابتدائی جماعتوں کے ننھے بچوں اور بچیوں کو بہت اعتماد کے ساتھ برطانوی لہجے میں انگریزی کی فاڈس مینٹس کرتے دیکھ اور سن کر مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی۔
یہ بچے ماڈل ٹائون کواپریٹو ہائوس بلڈنگ سوسائٹی سیالکوٹ کے ماڈل گرلز ہائی سکول کے ہیں جو اس سوسائٹی کے صدر محمد خالد وسیم ایڈووکیٹ اور پرنسپل اسمےٰطاہر کی نگرانی میں اپنے سکول کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس نوعیت کی بہت کم تقریبات میں کم سن بچوں کو اس قدر اعتماد اور تنظیم کے مظاہرہ کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں سے مخاطب ہوتے دیکھا گیا ہے۔ کئی گھنٹوں پر پھیلے ہوئے تقریباتی پروگرام کو تقریباً دو گھنٹوں میں سمیٹنا بہت مشکل تھا مگراس سکول کے بچوں اور ان کے اساتذہ کی ٹیم نے کر دکھایا۔ تقریب میں بچوں نے سائنسی نمائش کا خوبصورت اور معلومات افزا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ تقریب کے مہمانوں اور طلبا و طالبات کے والدین نے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے دلچسپ تمثیلچے پیش کرنے والے بچوں کی دل کھول کر تعریف کی اورتالیوں کی گونج مسلسل اور متواتر سنائی دی گئی۔
سیالکوٹ شہر کے لوگوں کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ انہوں نے اپنے شہر اور ضلع کے ایوان صنعت و تجارت کے زیر اہتمام اپنی مدد آپ کے تحت اپنا ایک نجی بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جس پر گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں ساڑھے چار ارب روپے سے بھی کم لاگت آئی جبکہ اسلام آباد کے نئے ہوائی اڈے کے صرف ’’رن ویز‘‘ چودہ ارب روپے کے تخمینے سے تعمیر کئے جارہے ہیں۔ کسی نے کہا ہے اور سچ کہا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لئے جو ادارہ تعمیر کریں گے اس کی چھت ان کے بچوں کے سروں پر نہیں گرے گی۔ نجی سطح پر تعمیر کیا گیا سیالکوٹ کا ہوائی اڈہ یہی حقیقت کا ثبوت پیش کرتا ہے اور سیالکوٹ کے ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر میرے عزیز دوست خاور خواجہ اس پر فخر کرسکتے ہیں۔
میاں محمد شہباز شریف کی تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ قابل قدر ہے لیکن طرز تعلیم کو مقابلے کی تعلیم سے زیادہ مطابقت اور تعاون کے جذبات کو تقویت دینے والی تعلیم میں تبدیلی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بچوں کو ’’تیری ٹوپی‘‘ اور ’’میری کتاب‘‘ کی تعلیم دے کر ان کے اندر ملکیت کے جذبات کو ابھارنے سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کو ’’خوبصورت ٹوپی‘‘ اور ’’اچھی کتاب‘‘ کی تعلیم دی جائے۔ بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشکل سوالات کے حل تلاش کرنے کی تربیت دی جائے کیونکہ آنے والے حالات میں ان بچوں نے ہی ملکی اور قومی مسائل کے حل تلاش کرنے ہیں اور یہ حل کہیں باہر سے درآمد نہیں کئے جائیں گے اندر سے ہی پیدا ہوں گے، ہماری اپنی زمینوں پر اگیں گے۔ اس نوعیت کی سوچ اورایسے جذبے پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کے لئے خالد وسیم جیسے لوگوں اور اسمےٰ طاہر جیسے استادوں اور استانیوں کی ضرورت ہے جو خاور خواجہ جیسے لوگوں کا تعاون حاصل کر کے اپنے بہتر، خوش حال اور محفوظ مستقبل کی راہیں ہموار کرسکیں۔ خاور خواجہ اور خرم خواجہ کے والد مرحوم اگر علامہ اقبال کے عقیدت مند تھے تو فیض احمد فیض کے قریبی دوستوں میں بھی شمار ہوتے تھے۔ سیالکوٹ شہر میں داخل ہوتے وقت ان کے اسم گرامی سے منسوب چوک سب کو خوش آمدید کہتا ہے۔ سیالکوٹ کی ڈسٹرکٹ جیل میں فیض احمد فیض کی بیگم ایلس فیض ان سے ملاقات کے لئے آتی تھیں تو دھوپ میں تقریباً جھلس جاتی تھیں۔ اس تلخ یاد کا احترام کرتے ہوئے ان کے دوست نے سیالکوٹ جیل کے باہر ایک مہمان خانہ تعمیر کرایا تھا جس کا افتتاح بیگم ایلس فیض نے کیا تھا۔