پاکستان آج ایک سنگین اقصادی بحران سے دوچار ہے اور حالیہ بجٹ نے عوام پر نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل نے ایک رپورٹ میں ہندوستان اور پاکستان کے تنخواہ دارطبقے پر عائد ٹیکسز کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ ہندوستان کے تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں 9.4گنازیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی، پٹرول ، گیس، دودھ اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں کے اضافے نے بھی محنت کشوں، غریب عوام اور درمیانہ طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ یاد رہے کہ 2015ءمیں پاکستان میں بجلی کی پیداوار بیس ہزار میگا واٹ تھی جبکہ اسکی کھپت تیرہ ہزار میگا واٹ تھی اور حکومت آئی پی پیز کو اس مد میں 200ارب روپے دے رہی تھی۔پاکستان کے عوام حیرت زدہ ہیں کہ 2024میں بھی بجلی کی کھپت تیرہ ہزار میگا واٹ ہی ہے لیکن اب ہم آئی پی پیز کو 200ارب روپے کی بجائے 2000ارب روپے دے رہے ہیں۔ جبکہ 53 آئی پی پیز مکمل طور پر بند ہیں لیکن حکومت پاکستان انکو کپیسٹی چارجز دے رہی ہے ۔گورنر پنجاب سردارسلیم حیدر نے ایک پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا ہے کہ 42آئی پی پیزکا تعلق حکمران گھرانوں سے ہے ،جنکا فوری طور پر آڈٹ کیا جائے۔
پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کی بہت بڑی وجہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں شدید کمی بھی ہے جو اس وقت 9فیصد سے کم ہے جبکہ ہندوستان میں یہ شرح 18فیصد سے زائد ہے۔اسکی اصل وجہ یہ ہے ہماری حکومت صرف تنخواہ دار طبقوں اور صنعتوں پر ٹیکس لگا رہی ہے۔ تاہم اب آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ ہونے جا رہا ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس ٹیکس سے 1500 ارب روپے تک جمع کیے جا سکتے ہیں مگر ہمارے آئین کے مطابق زراعت صوبائی شعبہ ہے اورزیادہ تر حکمران طبقوں کا تعلق جاگیرداروں، سرداروں اور سجادہ نشینوں کے خاندانوں سے ہے ۔ یاد رہے کہ ملک کی 37.4فیصد لیبر فورس زرعی شعبہ سے وابستہ ہے اور ملک کی جی ڈی پی کا 23فیصد حصہ اسی شعبہ کا مرہون منت ہے مگر اس شعبے سے صرف 0.1فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت کیلئے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصول کرنا سب سے آسان ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنا ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے وہ تنخواہ دار طبقے پر ہی مزید ٹیکس نافذ کرتی جا رہی ہے۔ حالیہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو 13فیصد تک لے جانے کا عندیہ دیا ہے لیکن وہ برآمدات ٹوجی ڈی پی کی شرح کو بڑھانے کی طرف سنجیدہ نہیں دکھائی دے رہی جو کہ جولائی 2024میں 10.4فیصد رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شرح بہت آسانی سے 15فیصد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ یوں آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔یاد رہے کہ 1990ء میں پاکستان کی برآمدات ٹو جی ڈی پی کی شرح 14.8فیصد تھی جو چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن پاکستان کی مختلف حکومتوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر سو روپے پر رکھی جس سے پاکستان کی برآمدات کی پالیسی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ورلڈ بینک کے ایک تلخ تخمینے کے مطابق پاکستان کی برآمدات 58.2فیصد کم ہو کر 2017میں صرف 8.2فیصد رہ گئیں۔اب وزیر اعظم بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی برآمدات کو تین سال میں 30بلین ڈالرز سے60بلین ڈالرز کر دیں گے، اس خوش فہمی کو اقتصادی ماہرین رد کر رہے ہیں کیونکہ ایک طرف بجلی کے نرخ بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف حالیہ بجٹ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ برآمدات پر ٹیکس نافذ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل انڈسٹری جسکا برآمدات میں حصہ تقریبا 60فیصد تھا، وہ حکومت کی گرانٹس اور سبسڈیز کی بنیاد پر چل رہی تھی، جسے آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد ختم کر دیا گیااورانکے مالکان کھل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ ان صنعتوں کو دوسرے ممالک میں لے جائیں گے۔سونے پر سہاگہ کہ آج ہی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے فوری طور پر بجلی کی قیمت میں دو روپے تریسٹھ پیسے بڑھانے کی درخواست نیپرا میں جمع کروا دی ہے اور یوں حکومت عوام سے مزید 35ارب روپے زبردستی وصول کرے گی۔ ان حالات میں زراعت اور آئی ٹی ہی دو ایسے شعبے ہیں جو برآمدات کو بڑھا سکتے ہیںکیونکہ ان میں نہ تو بہت زیادہ پیسہ لگانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کو بجلی کی زیادہ کھپت کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ انکے ٹیوب ویلز کو سولر پر چلایا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ان سیکٹرز کی برآمدات کوبڑھانے کیلئے درآمدات میں اضافے کی بھی ضرورت بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی موجودہ اقتصادی زبوں حالی کا سب سے بڑا مسئلہ 42آئی پی پیز ہیں جو اس غریب عوام سے 2000ارب روپے وصول کر رہی ہیں۔ ان کا جلد از جلد آڈٹ کیا جائے۔ سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے متبادل بجلی کے ذرائع پر پوری توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ تنخواہ دار طبقے اور صنعتی شعبے کے علاوہ زراعت کے شعبے اور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔