• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلومات اور علم کا فرق نظر انداز نہیں کیا جا سکتا!

کتنی تعجب خیز بات ہے کہ ہم اپنی تنگ نظری، عادات اور رواجوں کی کمزوریوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف بڑے لوگ تھے۔ ماضی کی درخشندگی کا احساس تو اقوام کے تشخص کے لئے ہے لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی منظرنامے میں صرف ماضی کی یہ عظمتیں کسی قوم کے تشخص کی واحد پہچان نہیں بن سکتیں۔ اقوام کا مجموعی تشخص تب تک نہیں بنتا جب تک عصری اور جدید علوم اس کی فکر و عمل کا حصّہ نہ بن جائیں۔ مندرجہ بالا تمہید میں نے اس لئے باندھی کہ سٹسٹ گارڈ جرمنی میں مقیم پاکستانیوں کی ایک تنظیم ’’تعلیم سب کے لئے‘‘ (ایجوکیشن فار آل) کے نام سے ایک بین الاقوامی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد (12؍تا 14؍اپریل) ہونے کو جا رہا ہے۔ اس تنظیم کے کوآرڈی نیٹر پاکستانی نژاد سید خرم ہیں جو خود تو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن دوسروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔ ان کے بقول غم روزگار نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ ڈگریوں کے ڈھیر لگا سکیں۔ خرم کے نزدیک صرف تعلیم محض نہیں رہی بلکہ وہ تعلیم کا ایک ارفع، ہمہ گیر، روشن خیال، وسیع، دوررس اور زندگی دوست تصوّر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وطن عزیز میں کچھ حلقے اور گروپ موت کو زندگی کے نام سے متعارف کرا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم میرے نزدیک ایک سماجی پہلو کی حامل ہے، ایک ضابطۂ حیات، مقصدیت اور افادیت کی حامل ہے۔ ’’تعلیم سب کے لئے‘‘ کے دوسرے روح رواں لکھ پتی پاکستانی نژاد محمد ظہور ہیں جنہوں نے روشن خیال تعلیم کے لئے سخنے درمے دامے قدمے کی یقین دہانی کے ساتھ سید خرم کے قافلے میں شمولیت اختیار کی ہے کیونکہ ان کے خیال میں عمومی تعلیم و تربیت کی زنجیروں سے ہی شدت پسندی کے جن کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس تعلیمی کانفرنس میں پاک و ہند کے علاوہ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی اور مقامی دانشور، ماہر تعلیم اور سیاستدان بھی شریک ہو رہے ہیں جو اپنے اپنے حساب سے شدت پسندی کے خلاف تعلیم کے ہتھیار سے کام لینے کے گر بتائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ بغیر معیاری اور عصری تعلیم کے نہ تو ہم موجودہ انتہاپسندی کے مدمقابل آ سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تعلیم دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اہم ہے کہ انتہاپسندی کو کتاب اور قلم سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ تشدد کا پھیلتا ہوا دائرہ ہے۔ اس تشدد کی آگ نے انسانیت کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے جس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے امن کا پیامبر رہا ہے۔ یہ دنیا کو بھائی چارے اور انسان دوستی کا سبق دیتا رہا جیسا کہ بیسویں صدی کے عظیم دانشور و مفکر روماں رووں نے برصغیر کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر اس سرزمین پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تہذیب کے آغاز کے دنوں سے ہی انسان کے سارے خواب اور ارمان پورے ہوتے رہے ہیں تو وہ جگہ برصغیر ہے‘‘۔ لیکن تلخ سچّائی یہ ہے کہ آج اس برصغیر کے ایک حصّے یعنی پاکستان کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج ہے کہ آخر کس طرح ملک میں تشدد کی چنگاری جو کہ شعلہ بن چکی ہے پر پانی ڈالا جا سکے۔ یہ سوال بہت پہلے اور کئی بار اٹھ چکا ہے کہ آخر ملک میں امن کی بحالی اور تشدد کے خاتمے کے لئے کون سا راستہ اپنایا جائے؟ اس مسئلے پر ہمارے دانشوروں نے الگ الگ اپنی رائے دی ہے لیکن میرے حساب سے ملک میں تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی نصاب کو نئے سرے سے نافذ اور رائج کیا جائے۔ اس معاملے میں میری اپنی سوچ و فکر اور رائے بالکل صاف اور واضح ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اگر اسکول کے نصاب میں اخلاقیات، تحفظ انسانیت، انصاف، سماجی مساوات اور سیکولرازم کے اسباق کو شامل کیا جائے۔ ہمارے ہاں آج اسکولوں و کالجوں میں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس سے طلبہ کے کردار و افکار میں تضاد رہتا ہے، ایسے میں بدامنی اور تشدد کو پھیلنے کا موقع تو ملے گا ہی۔ ہم سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ زندگی کے کسی شعبے میں ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک امن و سکون نہ ہو اور جہاں تک سوال ہے انسان کی زندگی کی کامیابی کا تو اس میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اگر تعلیم کے اندر ہی خرابی ہو تو آخر کس طرح کوئی اپنی منزل تک کامیابی سے پہنچ سکتا ہے؟ میرے حساب سے انسان کے لئے سب سے اہم چیز علم ہے۔ اگر انسان علم سے بے بہرہ ہو تو اس کا معاشرے میں جینا بے کار ہے۔ پاکستانی معاشرے میں برائی کے غلبے کی انتہا یہ ہے کہ برائی و لاعلمی، ندامت و شرمندگی کا سبب بننے اور معذرت خواہی کا باعث بننے کے بجائے وجۂ افتخار اور باعث اعزاز بن گیا ہے اور مشکل یہ ہے کہ قدیم علوم اور مذہبی معاملات کے جاننے والے جدید اور عصری علوم پر مہارت رکھنے والوں کو جاہل سمجھتے ہیں۔ قضیہ یہ ہے کہ بنیاد پرستی دراصل رواں پانی کو ٹھہرا دینے کے مماثل ہے جس سے پانی اور فکر دونوں سڑنے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بنیاد پرست دانشور اپنی بے بسی پر لگتا ہے جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ یہ دور معلومات کی چوطرفہ بوچھاڑ تو کر رہا ہے لیکن علم کے خانے کو خالی چھوڑے ہوئے ہے۔ معلومات اور علم کے فرق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ محض معلومات سے شخصیت کے جوہر نہیں کھلتے۔ علم کے حصول اور اسے انگیز کرنے سے کھلتے ہیں کہ معلومات سے صرف حافظے کا تعلق ہے جبکہ علم ذہن کو روشنی، روشن خیالی، عصری سوچ، بھائی چارہ اور شخصیت کو توانائی عطا کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں میری یہ بات ارباب اختیار کے گلے سے نہیں اترے گی لیکن ایک بار انہیں پھر سے غور کرنا ہو گا کہ نظر ہونا اور بات ہے اور نظریہ ہونا دوسری بات۔
تازہ ترین