• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتہ نہیں وہ لوگ کہاں چلے گئے جو کہا کرتے تھے کہ میرا وطن کائنات ہے۔ میری قومیت آدمیت ہے۔ میرا مذہب انسانیت ہے۔ میری زبان محبت ہے۔ میں ایک انسان ہوں اور ہر انسان کو آسودہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

اب تو ہر لمحہ یہی لگ رہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں مذاہب کا تصادم، تہذیبوں کی جنگ اور جغرافیائی لکیروں کی آویزش میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ مسئلہ فلسطین تقریباً ایک صدی سے سلگ رہا ہے اور اس وقت اسماعیل ہنیہ کی شہادت اس سلگتی ہوئی انگیٹھی پر پٹرول انڈیلنے سے کم نہیں۔

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب سرمایہ دارانہ تہذیب نے اپنے چہرے پر نئی پلاسٹک سرجری کرائی تھی اور نئے خدوخال کے ساتھ تاریخ کی اسکرین پر نمودار ہوئی تھی۔ بڑے عظیم اور دانشورانہ دعوے تھے۔ یقیناً وہ اس یقین کے ساتھ زیرو گرائونڈ پر آئی تھی کہ انسانیت کے تمام زخموں کے مرہم اس کے پاس ہیں۔ وہ ہر درد کی چارہ گری کرے گی۔ اس نے ہر کرب کی مسیحائی سیکھ لی ہے۔ وہ انسان کے سینے میں طمانیت بھر دے گی۔ پریشان حال ذہن کو امن و سکون سے ہمکنار کر دیگی۔ دنیا کی خوبصورتی کو اپنے خوبصورت تر عمل سے خوبصورت ترین بنادے گی۔

انسان کی اجتماعی سوچ نے گڈمارننگ کہتے ہوئے اس تہذیب سے مصافحہ کیا۔ بے شک اس تہذیب کے ماتھے پر بے مثال مادی ترقی کی صبحیں درج تھیں اور اس کا اعلان تھا کہ عالمِ انسانی میں اب رات کی سپرمیسی ختم ہو جائے گی۔ اندھیرا کہیں نہیں رہے گا۔ ہر طرف لائٹس ہوں گی، نور ہوگا اور انسان روشنیوں کا سفر شروع کرے گا اور اس کے ہر قدم پر ایک کہکشاں ہو گی مگر ہم نے دیکھ لیا کہ اس تہذیب نے ایک ہی صدی میں انسانیت کو دو عالمی جنگوں میں جھونک دیا، اس کے بعد بھی اسکی قہر سامانی ختم نہ ہوئی اور آج تک کسی نہ کسی زمین پر آگ کے شعلے انسانی آبادیوں کو راکھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ درد کی یہ مسلسل فلم بڑی خوفناک ہے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی سے لے کر ہولوکاسٹ کے ایپی اسوڈ تک اس میں ایسے ایسے سین موجود ہیں جنہیں ایک بار بھی دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس تہذیب نے بلا شبہ اْس سائنس کو بھی رواج دیا جس نے شہر جگمگا دیے۔ فاصلوں کو کھینچ لیا۔ دنیا مٹھی میں سمیٹ دی۔ عمر میں اضافہ کیا۔ بیماریوں کے علاج دریافت کئے۔ انسان کو آسانیاں اور سہولیات عطا کیں۔ مشینوں نے قوتِ کار میں بے پناہ اضافہ کیا۔ زرعی پیداوار اور صنعتی پیداوار کے اضافے نے زمانہ بدل دیا لیکن دوسری طرف اسی سائنس نے ہلاکت خیزیوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔ انتہائی خطرناک جنگی سامان بنایا گیا، ہائیڈروجن بم اور ایٹم بم جیسی اندھی قوتوں کا رواج ہوا اور آدمی آدمی کے شکار میں بہت زیادہ بےباک ہوتا گیا۔ اکیسویں صدی کا آغاز بڑی روشن امیدوں کے ساتھ ہوا تھا انسان کا خواب تھا کہ اب بہت زیادہ حکمت و دانش آ گئی ہے، قومیں تعلیم یافتہ ہو گئی ہیں پہلے کی سی جہالت اور ہوس زرگری کے مظاہرے نہیں ہونگے مگر اسکی ابتدا ہی بڑے خونیں حادثات سے ہوئی دہشت گردی عام ہوئی، ورلڈ ٹریڈ سنٹر ہی پر موقوف نہیں دنیا کے ہر گوشے میں تباہی کا بازار گرم ہوا۔ امریکہ جیسے انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ ملک نے یورپ اور باقی دنیا کی قوموں کو پکارا اور سب غیظ و غضب میں بے سوچے سمجھے افغانستان اور عراق پر ٹوٹ پڑے اور جو حشر سامان ہلاکت خیزیاں ہوئیں انہیں کون نہیں جانتا۔ ان کا کیا ذکر کروں کیونکہ یہ تو روزمرہ کا معمول ہیں کوئی آدمی اپنے گھر بیٹھ کر بھی کسی لمحے اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کرتا۔ ٹیلی وژن کی شریانوں سے لہو بہہ کر ڈرائنگ روم کے کارپٹ کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ ان ہلاکت خیزیوں کے اسباب کچھ بھی ہوں ایک چیز سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں کوئی بنیادی خرابی رہ گئی ہے، اس تہذیب کے قصر کی اساس میں کوئی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی گئی ہے کہ عمارت ثریا تک پہنچ گئی مگر اسکی کجی ہر دیکھنے والی آنکھ کو چبھ رہی ہے۔ ایران اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ نہیں لیتا تو قوموں میں سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا کہ وہ ایک مہمان کی حفاظت نہیں کر سکا۔ سعودی عرب اور قطر بھی اس شہادت کے بعد خاموش نہیں رہ سکتے۔ اس وقت سعودیہ پوری طرح حزب اللہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ یمن پہلے اسرائیل اور اس کے حواری ممالک سے جنگ شروع کر چکا ہے ترکی کیلئے جنگ سے باہر رہنا ممکن نہیں ہورہا۔ امریکہ اور روس پہلے یوکرائن کے محاذ پر آپس میں دست و گریباں ہیں اور یہ جنگ یورپ تک پہنچ سکتی ہے۔ روس نے ایٹمی جنگ کی بھی دھمکی دے رکھی ہے بلکہ میامی پر ایٹمی میزائل نصب کر رکھے ہیں۔ پینٹا گون کے جنرل کہہ چکے ہیں کہ دوہزار پچیس تک امریکہ اور چین کی جنگ ناگزیر ہو جائے گی۔ بھارت اور چین کی سرحدیں بھی سرد نہیں۔ چین جاپان اور امریکہ کو وارننگ دے چکا ہے کہ سرد جنگ کسی وقت بھی گرم جنگ میں بدل سکتی ہے۔ امریکہ کی روس اور چین کے ساتھ خلائی جنگ بھی کسی وقت شروع ہو سکتی ہے۔

یمن تو پوری طرح حالت جنگ میں ہے۔ روس نے شام کو بھی اسرائیل پر حملے کی اجازت دے دی ہے بلکہ تمام ضروری اسلحہ بھی پہنچا دیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ جنگ کرے۔ عوامی امنگوں پر پورا اترنے کیلئے کوئی بھی طالع آزما یہ کام شروع کر سکتا ہے۔ شمالی کوریا بھی تیسری عالمی جنگ کے انتظار میں مسلسل تیاری کر رہا ہے۔ پا ک بھارت جنگ کے امکانات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ مودی کو چین کی جانب سے تھوڑا خطرہ جیسے ہی کم ہوا اس نے اپنی فوجیں آزاد کشمیر کی طرف بھیج دینی ہیں اور پاکستان کے پاس ایٹمی جنگ کے سوا اپنے بچائو کا کوئی اور راستہ نہیں۔

تازہ ترین