پاکستان کے نام وَر قلم کاروں اور انشا پردازوں نے تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت سے وابستہ اہم، منفرد واقعات اور اچھوتے خیالات کو اپنی تحاریر کا حصّہ بنا کر دوام حاصل کیا۔ ان مصنّفین کے رشحاتِ قلم نہ صرف اُن کے دَور بلکہ موجود عہد اور آئندہ آنے والی نسلوں کی تعمیر کے لیے بھی ایک خزینے کا درجہ رکھتے ہیں۔
ذیل میں یومِ آزادی کی مناسبت سے چند کُتب کے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔ ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر پیش کیے جانے والے دِل گُداز اور بصیرت افروز واقعات پر مبنی یہ اقتباسات یقیناً قارئین کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑیں گے اور اُن کے دِلوں میں پاک سرزمین اور بانیٔ پاکستان کی عزّت و عظمت دو چند ہو جائے گی۔
………٭٭………
’’ریفیوجی کیمپ، لاہور اُس وقت دُنیا کا سب سے بڑا ریفیوجی کیمپ تھا۔ یہ تین حصّوں میں تقسیم تھا۔ میری ڈیوٹی چائنیز بیرکس میں تھی۔ میرا اناؤنسنگ بُوتھ بالکل ایئر ٹائٹ تھا۔ اس کے دروازوں کو کرافٹ پیپر لگا کر سِیل کر دیا گیا تھا۔ اندر آنے جانے کے لیے چھوٹا سا دروازہ تھا۔ ممتاز مُفتی اور خواجہ شفیع میرے بُوتھ میں بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اور مَیں میزبانی کے شوق میں لنگر سے گرم گرم روٹی لا کر رکھ دیتا تھا۔
مَیں اخبار کی چوہری تہہ میں تنور سے نکلی ہوئی دو سُرخ اور کڑکڑاتی روٹیاں لے کر آ رہا تھا۔ جلدی اس بات کی تھی کہ گرم اور تازہ روٹی لے کر اپنے مہمانوں کی خدمت میں پہنچ جاؤں۔ مَیں روٹی لے کر جا رہا تھا کہ سامنے قائدِ اعظم کھڑے دکھائی دیے۔
وہ ایک طرح سے میرا راستہ روک کر کھڑے تھے۔ قائدِ اعظم کو اپنے قریب دیکھ کر میرا دل مر جانے کو چاہا کہ پھر بس اُس کے بعد نہ کچھ اور ہو اور نہ یہ سین دوبارہ وجود میں آئے۔ قائد ِاعظم نے اپنے دایاں ہاتھ ذرا سا اوپر اٹھا کر مجھ سے پوچھا،’’ روٹی ہے؟‘‘ مَیں نے کہا، ’’جی جناب! روٹی ہے۔‘‘ ’’یہاں بنی ہے؟‘‘’’ جی! اسی لنگر میں بنی ہے۔‘‘ ’’ سب کے لیے ہے؟‘‘’’ ہاں جی! سب کے لیے ہے۔‘‘’’ اچھی ہے ،ٹھیک ہے… ؟‘‘’’ بہت اچّھی، جنابِ عالی۔‘‘’’ کھا کے دکھاؤ ۔‘‘ مَیں نے تعمیلِ ارشاد میں فوراً ایک لقمہ توڑ کر منہ میں ڈال لیا اور پھر قائدِ اعظم نے بھی ہاتھ آگے بڑھا کر اُس میں سے ایک لقمہ توڑا اور اسے اپنے منہ میں رکھ کر چبانے لگے۔ قائد کا ہاتھ نہایت ہی کم زور اور دُبلا پتلا تھا۔
بس ڈوریوں کا پنجہ تھا، جس پر باریک جِھلّی چڑھی تھی۔ اُن کا قافلہ آگے بڑھا، تو مَیں اپنی جگہ سے ہلا اور بُوتھ کی طرف بھاگا، جہاں میرے مہمان میرا انتظار کر رہے تھے۔ جب مَیں نے ممتاز مُفتی کو بتایا کہ قائدِ اعظم نے ایک لقمہ توڑ کر کھایا ہے، تو اس نے روٹی ہاتھ سے اُچک کر اخبار میں لپیٹ دی اور بغل میں دبا لی۔ کہنے لگا، ’’میری بُھوک ختم… دوسری تم کھا لو۔‘‘ بڑے عرصے بعد جب آزاد کشمیر ریڈیو میں اسکرپٹ رائٹر ہو گیا، تو ممتاز مُفتی نے مُجھے وہ سُوکھی ہوئی روٹی دکھائی، جو اس نے ایک ریشمی جزدان میں رکھی ہوئی تھی۔‘‘
(’’بابا صاحبا ‘‘از اشفاق احمد)
………٭٭………
’’مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض اور ذمّے داریاں پوری کرنے کے علاوہ انہیں مرکزی مجلسِ قانون ساز میں مسلم لیگ کے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے بھی کام کرنا پڑتا تھا۔ گزشتہ کئی روز سے اُنہیں بخار ہورہا تھا۔ اس کے باوجود ہم نومبر 1940ء میں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے بمبئی سے دہلی روانہ ہوئے۔ وہ رات کا کھانا کھا چُکے تھے اور ٹرین تاروں بَھرے صاف و شفّاف آسمان کے نیچے تیزی کے ساتھ دہلی کی طرف رواں تھی۔ وہ بستر میں لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک زور سے چِلّا اٹھے۔ جیسے کسی نے لوہے کے سُرخ دہکتے ہوئے ٹکڑے سے اُن کا جسم داغ دیا ہو۔
مَیں جلدی سے ان کے پاس پہنچی اور اُن کے اس طرح بلبلا اُٹھنے کی وجہ دریافت کی۔ درد کی شدّت نے اُن کی قوّتِ گویائی سلب کر لی تھی۔ چناں چہ کچھ کہنے کی بجائے وہ انگلی سے ریڑھ کی ہڈی کے نیچے دائیں جانب صرف اشارہ کر کے رہ گئے۔ ظاہر ہے کہ درد نا قابلِ برداشت تھا اور یہ بھی واضح تھا کہ چلتی ہوئی گاڑی میں طبّی امداد نہیں مل سکتی تھی۔ مَیں نے درد کم کرنے کے خیال سے اُن کے جسم کے متاثرہ حصّے کو آہستہ آہستہ سہلانا شروع کر دیا، مگر ایسا کرنے سے ان کی تکلیف میں اور بھی اضافہ ہونے لگا۔
مایوس ہو کر مَیں نے یہ کوشش بھی ترک کر دی۔ مُجھے اُمید تھی کہ ٹرین کسی اسٹیشن پر رکے گی، تو متاثرہ حصّے کی ٹکور کرنے کے لیے گرم پانی کی بوتل مل جائے گی۔ وقت گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ ٹرین کے بریکوں کی چرچراہٹ سُنائی دینے لگی اور بالآخر گاڑی ایک اسٹیشن پر رُک گئی۔ مَیں نے گارڈ سے کہا کہ وہ فوراً گرم پانی کی بوتل کا بندو بست کرے اور اسے ہمارے کمپارٹمنٹ میں بھجوا دے۔ بوتل آگئی، تو مَیں نے اسے ایک نیپکن میں لپیٹ کر درد والی جگہ پر آہستہ آہستہ ٹکور کرنا شروع کی اور یہ جان کر مجھے قدرے اطمینان ہوا کہ اس سے درد کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔
ٹرین علی الصباح دہلی پہنچی اور جلدی ہی ہم اپنی رہائش گاہ 10اورنگ زیب روڈ پہنچ گئے۔ مَیں نے اپنے بھائی کو کار سے بستر تک لے جانے میں اُن کی مدد کی اور ٹیلی فون پر ڈاکٹر کو بلایا۔ تفصیلی چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ قائدِ اعظم کے پھیپھڑے کی جِھلّی پر وَرم آگیا ہے اور انہیں کم از کم دو ہفتے تک لازمی طور پر آرام کرنا چاہیے۔ جونہی ڈاکٹر گیا، تو میرے بھائی نے مجھ سے کہا۔ ’’کس قدر بد قسمتی کی بات ہے، یہ اجلاس بہت اہم ہے، میری وہاں موجودگی نہایت ضروری ہے اور ایک مَیں ہوں کہ بستر میں جبری آرام کی عیّاشی کا پابند کر دیا گیا ہوں۔“
وہ صرف دو روز تک بستر میں رہے اور اس کے بعد دوبارہ کام میں مصروف ہو گئے ۔ وہ ایک مختلف اور بے چین شخص تھے، جو اپنی قوم کی تاریخ کے پریشان دَور میں پیدا ہوئے تھے۔ اگلے روز انہوں نے اسٹاف کالج، کوئٹہ کے افسروں سے خطاب کیا اور پُر زور لہجے میں فرمایا ۔” مَیں یہاں ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور مُجھے یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اعلیٰ عُہدوں پر فائز ایک دو افسروں کے ساتھ گفتگو کے بعد مُجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس حلف کے منشا سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں جو افواجِ پاکستان نے اُٹھایا ہے۔ بلاشُبہ حلف اُٹھانا ایک رسم ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ اہم جذبے اور دل کی سچّائی ہے۔
یہ ایک نہایت اہم رسم ہے اور مَیں اس توقع پر آپ کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے حلف کی عبارت کو دُہرانا چاہتا ہوں ۔’’میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر صدقِ دل سے عہد کرتا ہوں کہ مَیں آئین اور ڈومینین آف پاکستان کا وفادار رہوں گا اور یہ کہ مَیں مسلّح افواج میں اپنی شرائطِ شمولیت کے مطابق فضا، خُشکی یا سمندر میں انتہائی دیانت داری اور وفاداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دوں گا اور اپنے آفیسر کے تمام احکامات کی تعمیل کروں گا۔‘‘
جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے کہ جذبہ ہی اصل چیز ہے، جو اہمیت رکھتا ہے۔ مَیں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ آئین اور ڈومینین کے وفادار رہیں گے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ پاکستان میں نافذ العمل موجودہ آئین کا مطالعہ کریں اور اس کے صحیح آئینی اور قانونی منشا اور معانی کو سمجھیں۔“
15جون 1948ء کو کوئٹہ میونسپلٹی کی جانب سے قائدِ اعظم کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستان کے ہر طبقے میں صوبہ پرستی کی لعنت کو موجود دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ عوام خود کو بلوچی، پٹھان، سندھی، پنجابی اور بنگالی سمجھنے کی بجائے صرف اور صرف پاکستانی سمجھیں۔
اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے کہا۔ ”نمائندہ حکومت اور نمائندہ اداروں کا قیام بلاشُبہ بہت اچّھی اور پسندیدہ بات ہے، لیکن جب لوگ خود کو صرف ذاتی مفادات تک محدود کر لیں، تو یہ ادارے نہ صرف اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتے ہیں بلکہ بدنامی کا باعث بھی بن جایا کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یہ انداز اختیار کرنے سے گریز کریں اور ایسا صرف اسی صُورت میں ممکن ہے، جیسا مَیں پہلے کہہ چُکا ہوں کہ ہم اپنے اعمال کو ذاتی یا طبقہ دارانہ مفادات کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے مخصوص مفاد کے پیمانے سے جانچیں۔“
(’’میرا بھائی‘‘ از محترمہ فاطمہ جناح)
………٭٭………
’’بسا اوقات مُجھے وہ شخص یاد آتا ہے، جو ایک نو آبادیاتی حکومت سے آزادی کے لیے بہادری سے لڑا اور اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔ وہ قومی ہیرو بن گیا، مگر جنگ طویل تھی اور جاری رہی۔ یہی ہیرو اسی اثنا ایسا بدلا کہ دوسری طرف جا ملا اور مُلک کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ جنگ نو آبادیاتی حُکم رانوں نے جیت لی ۔ اب قومی ہیرو کے صحیح مقام کے تعیّن کا سوال اُٹھا اور طے پایا کہ اس کا ایک مجسمہ نصب کیا جائے ۔ مگر صرف ایک ٹانگ پر مشتمل ہو، جو آزادی کی راہ میں کٹی تھی۔ ایک ٹانگ کا یہ مجسمہ عبرت کا بہت بڑا سبق ہے۔
اگر پاکستان میں مجسمہ سازی جائز ہوتی اور تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں مجسمے بنائے جاتے اور کہیں نصب کیے جاتے، تو اس جگہ پر علم الاعضا کے عجائب گھر کا گمان گزرتا ۔ ایک فردِ واحد کے علاوہ کسی اور کا مجسمہ وقت کے ہاتھوں سلامت نہ رہتا۔ اس فردِ واحد کو یاد کرتا ہوں، تو خیال آتا ہے کہ عقیدہ عمارت سے پائے دار ہوتا ہے۔‘‘
’’ایک بندرگاہ پر فوجی بینڈ بج رہا تھا۔ دُھن غمگین تھی اور سُر مدھم تھا۔ برطانوی سپاہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے جہاز پر چڑھنے لگے۔ جہاز نے لنگر اٹھایا، تاریخ نے وَرق الٹا۔ صفحے پر جلی حروف سے لکھا ہوا تھا، ’’اور جس سے چاہیں، ملک لے لیتے ہیں۔‘‘ (القرآن)۔پاکستان کی مجلسِ آئین ساز کا اجلاس تھا۔ ملکۂ معظمہ کا نمایندہ کہہ رہا تھا، ’’آج مَیں آپ کے وائسرائے کی حیثیت سے تقریر کر رہا ہوں۔ کل سے مملکتِ پاکستان آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ غیب سے ندا آئی ، ’’ مالک الملک تُو ہی دیتا ہے ملک، جس کو چاہے ۔‘‘ (القرآن) ۔
مَیں نے یہ آیت سُنی، تو آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ مَیں نے مینارِ پاکستان کی رفعت سے اُفق پر نگاہ ڈالی۔ مجھے چاٹگام کا ساحل اور سلہٹ کے پہاڑ نظر آئے۔ اب مُجھے مینار کی عظمت کا احساس ہونے لگا۔ دل نے کہا، آج مطلع صاف ہے اور نظر دُور تک جاتی ہے۔ اگر غُبار آلود ہوا، تو شاید تمہیں اس مینار سے لاہور کا شہر بھی دھندلا دکھائی دے گا۔ مَیں نے پوچھا، مطلع صاف رکھنے کا نسخہ کیا ہے؟ جواب ملا، نہیں، یہ سوال زیب نہیں دیتا۔ تمہارے پاس تو کیمیا بھی ہے اور نسخۂ کیمیا بھی ۔‘‘
’’سرسیّد کا مزار ہماری جماعت کے نزدیک ہی تھا۔ مسجد میں داخل ہوں، تو شمالی جانب قبروں کی جو قطار ہے، اس کے وسط میں سرسیّد کا مزار ہے۔ ہم نے بارہا لوہےکے جنگلے کو تھام کر حیرت سے اس قبر کو دیکھا۔ یہی وہ شخص ہے، جس نے ریلوے اسٹیشن پر ’’ہندو پانی‘‘ کی آوازیں سُنیں، توان کے جواب میں ’’مسلمان تعلیم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ہندو پانی اور مسلمان پانی کا فرق اور مفہوم کچھ عرصے کے بعد دو لفظوں میں یوں ادا ہونے لگا، علی گڑھ اور بنارس۔
ان دو شہروں کے درمیان جو فاصلہ تھا، وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ دو نئے لفظ سُننے میں آئے، پاکستان اور بھارت۔ یہ نام ہم قافیہ تو نہیں، مگر ہم وزن ضرور ہیں۔ کل یہ شر دھانند، مونجے اور ساورکر کہلاتا تھا، آج اسےٹنڈن اور مکرجی کہتے ہیں۔ کل اسے مدھوک اور گوالکر کہا جائے گا۔ سچ ہی تو کہتے ہیں کہ ہندومذہب میں آوا گون برحق ہے۔‘‘
(’’آوازِ دوست‘‘ از مختار مسعود)