کراچی کے صحافی خاور حسین کی موت خودکشی قرار دے دی گئی، اس حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ جمع کروا دی۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی آزاد خان تھے، کمیٹی کے دیگر ارکان میں ڈی آئی جی عرفان بلوچ اور ایس ایس پی عابد بلوچ شامل تھے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی 8 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے ساتھ میڈیکل ریکارڈ بھی شامل کیا گیا ہے، 3 رکنی کمیٹی کی مجموعی رپورٹ 30 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے دوران گاڑی کے قریب کوئی شخص نہیں آیا تھا۔
اس حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کے رکن ڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی اہم شواہد کے طور پر لیا گیا، تمام شواہد کے بعد کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ خاور حسین نے خودکشی کی۔
رپورٹ کے مطابق کراچی سے لے کر سانگھڑ تک خاور حسین کے سفر کی دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا، ہوٹل پارکنگ کے اندر داخل ہونے سے خودکشی تک تمام ویڈیوز کو تمام پہلوؤں سے دیکھا گیا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاور حسین کے موبائل فون کا کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل کیا گیا، ان سے رابطے میں آخری متعدد افراد کے بیانات بھی لیے گئے، میڈیکل رپورٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی خودکشی کا کہتی ہے، خودکشی کی وجوہات جاننے کے لیے اہلِ خانہ کا آگے آنا ضروری ہے۔
صحافی خاور حسین کے قتل کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق گھر پر پانی نہیں تھا، خاور حسین نے واٹر ٹینکر والے کو بھی فون کیا، انہوں نے واٹر ٹینکر ڈرائیور کو پانی کی فراہمی کے چارجز آن لائن ٹرانسفر کیے، ہوٹل ہی نہیں گاڑی کے اطراف کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں، گاڑی کی موجودگی کے دوران کوئی شخص گاڑی کے قریب نہیں آیا۔
واضح رہے کہ 17 اگست کو سانگھڑ میں حیدرآباد روڈ پر گاڑی سے کراچی کے صحافی خاور حسین کی لاش ملی تھی۔
پولیس کی جانب سے ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ صحافی خاور حسین نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے خودکشی کی ہے، صحافی خاور حسین کا آبائی گھر سانگھڑ میں ہے۔