یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دینِ اسلام، امن و سلامتی کا داعی، تحمّل وبرداشت، عفوودرگزر، رواداری اور احترامِ انسانیت کا عظیم علَم بردار ہے۔ اسلام کی رُو سے کُل بنی نوع انسان بلاتفریقِ مذہب و ملّت احترام کے مستحق ہیں۔ مطلب اسلام تفریقِ رنگ و نسل، بدامنی و دہشت گردی، عدم برداشت اور انتہا پسندی جیسے افعال و اعمال اور رویّوں سے یک سر پاک مذہب ہے۔
درحقیقت اسلام ’’سلامتی‘‘ اور ایمان ’’امن‘‘ سے عبارت ہے اور حقیقتاً اسلام ہی نے دنیا کو امن و سلامتی اور احترامِ انسانیت کا درس دیا۔ اسی نے پُرامن بقائے باہم کے لیے بلاتفریقِ مذہب وملّت، ’’لَکُم دِینُکُم وَلِیَ دِینِ‘‘ کا نظریہ عطا کرکے غیرجانب داری، اعتدال پسندی اور امن وسلامتی کافلسفہ عطا کیا۔ اسلام نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کا ربّ سارے جہانوں کا رب ہے، اس کی بڑی صفت یہ ہے کہ وہ ’’رحمٰن ورحیم‘‘ ہے۔
انسانیت کے ہادی ِاعظم، سیّدِ عرب وعجم ،پیغمبرِ آخرواعظم، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ’’رحمۃ لّلعالمین‘‘ بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ ؐ کی پوری حیاتِ طیّبہ، صبروبرداشت، عفوودرگزر، رواداری، میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی سے عبارت ہے۔ قصّہ مختصر، مذہبی انتہا پسندی، اسلام کی حقیقی رُوح اور اسلامی تعلیمات کے یک سر منافی عمل ہے۔ ’’انتہا پسندی‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں، کیوں کہ یہ دین کی حقیقی تعلیمات، اسلام کے پیغامِ امن و سلامتی اور پیغمبرِ رحمت، محسنِ انسانیتﷺ کے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیّبہ کے منافی عمل ہے۔
’’انتہا پسندی‘‘ کو قرآن نے ’’غلوفی الدین‘‘ سے تعبیر کیا ہےاور اہلِ کتاب کی مذہبی انتہا پسندی، مبالغہ آمیزی اور شدّت پسندی کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہوئے واضح طور پر ارشاد فرمایا: (ترجمہ) ’’اے اہلِ کتاب!غلو نہ کرو اپنے دین میں، اور نہ کہو اللہ کے بارے میں حق کے سوا۔‘‘
جب کہ ’’سورۃ المائدہ‘‘ میں فرمایا گیا: (ترجمہ)’’ کہہ دیں، اے اہلِ کتاب، اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو اس سے قبل گُم راہ ہوچکے ہیں اور انہوں نے بہت سوں کو گُم راہ کیا، اور وہ خُود بھی بہک گئے۔‘‘یہودیوں نے مذہبی معاملات میں انتہا پسندی کا جو رویّہ اپنایا، قرآنِ کریم کی ’’سورۃ البقرہ‘‘ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ چناں چہ قرآنِ کریم نے ان کے انتہا پسندانہ رویّے کی وضاحت فرمائی، جب کہ عیسائیوں نے مذہبی انتہا پسندی اور غلو کا جس طرح مظاہرہ کیا، وہ بھی کسی پر مخفی نہیں۔
اسلام زندگی کے ہر شعبے، بندگی کے ہر گوشے میں اعتدال و میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اور قرآن و سنّت میں اس حوالے سے واضح ارشادات موجود ہیں۔ نماز کو اسلام کا بنیادی ستون، مومن کی معراج، رسولِ اکرم ﷺکی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، اس میں بھی اعتدال کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں حضرت لقمان ؑ کی اپنے بیٹے کے نام کئی نصیحتوں کا ذکر ہے اور اُن میں بھی میانہ روی، اعتدال اور توازن کی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے، (ترجمہ) :’’ اور میانہ روی کر اپنی رفتار میں، اور پست کر اپنی آواز کو۔‘‘ قرآنِ کریم نے دین و مذہب کا جو تصوّر عطا کیا ہے، وہ اعتدال پر مبنی ہے۔
یعنی انتہا پسندی کے مقابلے میں اعتدال پسندی مستحسن عمل اور دین کی اصل روح ہے۔ اس حوالے سے قرآن نے امّتِ مسلمہ کو ابلاغ اور تبلیغِ دین کے ساتھ اعتدال پسندی اور غیر جانب داری کا اصول عطا کیا ہے۔ قرآن کی ہدایت ہے، ’’اپنی فکر کرو، جب تم سیدھی راہ پر چل رہے ہو، تو جو شخص گُم راہ ہے، اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔‘‘ اور فرد کی اس ذمّے دارانہ حیثیت کو مختلف پیرایوں میں اس طرح بیان کیا گیا۔’’اور جو کوئی بُرا عمل کرتا ہے، تو اس کا نقصان اس کے ذمّے ہے اور کوئی شخص کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘
پیغمبرِ آخرو اعظم، حضرت محمد ﷺ نے انسانی حقوق و فرائض کے ابدی اور عالمی منشور ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کے تاریخ ساز موقعے پر جو کہ درحقیقت تکمیلِ دین اور فریضۂ رسالت و نبوت کا اہم موقع تھا، ارشاد فرمایا: ’’اور سُنو! غلو (انتہا پسندی) سے بچنا، کیوں کہ دین میں غلو کرنے والے تم سے پہلے بھی ہلاک کردیے گئے۔‘‘
یہ تاریخ ساز خطبہ اللہ کے رسول ﷺکا انسانیت کے نام آخری پیغام اور وصیّت کی حیثیت رکھتا ہے، اس تاریخی خطبے کے پیشِ نظر آپؐ نے بار بار فرمایا: ’’الا ھل بلّغت‘‘ سُنو! مَیں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔‘‘ مزید تاکید کے طور پر ارشاد فرمایا:’’فلیبلّغ الشّاھدالغائب۔‘‘ جو اس وقت موجود ہے، وہ میرا پیغام ان تک پہنچا دے، جو موجود نہیں ہے۔‘‘
اسوۂ رسول ﷺ میں صبر و برداشت اور عفوودرگزر کی اہمیت
صبر و برداشت اور تحمّل و رواداری اسوۂ نبویؐ کا خصوصی امتیاز ہے، عفو و درگزر اور صبرو برداشت کے مثالی پیکر، پیغمبرِ رحمت ﷺ کے متعلق قرآنِ کریم نے شہادت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:(ترجمہ)’’تو اللہ کی رحمت کے سبب آپؐ ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر آپؐ مزاج کے تیز اور دل کے سخت ہوتے، تو یہ لوگ آپؐ کے پاس سے تتّر بتّر ہوگئے ہوتے۔ چناں چہ رحمتِ عالم، حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ طیّبہ میں صبر و برداشت کا وصف نمایاں طور پر موجود تھااور اللہ تعالیٰ نے اسے خاص اپنی رحمت کا نتیجہ قرار دیا۔
علاوہ ازیں، قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر آپؐ کو صبر و برداشت کا حکم ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کے متعلق دربارِ خداوندی سے ارشاد فرمایا گیا:’’تُو میرا بندہ اور میرا رسول ہے، مَیں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے، رسول اللہؐ، نہ سخت کلام ہیں، نہ سخت طبیعت۔ نہ بازار میں شور کرنے والے ہیں اور نہ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دینے والے ہیں، وہ معاف کرتے اور درگز کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں ہر گز اس دنیا سے نہیں اٹھائے گا، جب تک کہ وہ ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہیں کر دے گا کہ وہ دل سے ’’لا الٰہ الّا اللہ‘‘ کہنے لگیں، تاکہ ان کی بند آنکھیں، بہرے کان، اور پردہ پڑے ہوئے دل کُھل جائیں۔‘‘
ہند بن ابی ہالہؓ جو پیغمبرِ رحمتﷺ کے آغوش پروردہ تھے، اپنی معرفت اور طویل مشاہدے کی بنیاد پر آپؐ کی شخصیت کا تعارف اِن الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’آپؐ نرم خُو تھے، سخت مزاج نہ تھے،ذاتی معاملات میں آپ ؐ کو نہ کبھی غصّہ آیا اور نہ آپؐ نے کسی سے انتقام لیا۔‘‘ رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’ جو شخص قدرت کے باوجود غصّے کو ضبط کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے بُلا کر اسے انعام سے نوازے گا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ دورِ حاضر میں انتہا پسندی کے رجحان کے خاتمے کے لیے اسوۂ نبویؐ کے اس پہلو پر عمل ہی درحقیقت امن و سلامتی، فرقہ واریت کے خاتمے اور پُرامن معاشرے کے قیام کی یقینی ضمانت ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی مخفی نہ رہے کہ اسلام ایک استدلالی اور عقلی مذہب ہے، اس کے تبلیغ و دعوت کے اصول، حکمت و دانش مندی، اعتدال اور میانہ روی اور وعظ و نصیحت پر مبنی ہیں۔ اسلام نے یہ تعلیم بھی دی کہ مذہب، رضا، خوش دلی اور جذبہ خود اختیاری کا نام ہے۔
اس کا تعلق قلب و رُوح سے ہے، اور قلب و رُوح کو بہ زورِ شمشیر تسخیر نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان، دراصل یقین کا دوسرا نام ہے، دنیا کی زبردست سے زبردست طاقت جبراً کسی کم زور سے کم زور انسان کے دل میں بھی یقین کا ایک ذرّہ پیدا نہیں کرسکتی۔ قرآن کا ابدی اصول ہے،’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، حقیقت گم راہی سے الگ ہوچکی ہے۔‘‘اسلام مذہب کے معاملے میں یہ اصول واضح کرتا ہے کہ لوگوں کو مذہب کے معاملے میں آزادی حاصل ہو۔ عقل و بصیرت والے چشمۂ نُور سے فیض یاب ہوں اور نا فہم، کج رُو محروم رہیں۔
اس حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے:’’ اور اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ (لوگوں کو زبردستی مومن بنا دے) تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے۔ تو کیا پیغمبر، آپؐ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘ اس طرح قرآن و سنّت میں انتہا پسندی، غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت، جبر و تشدّد کے ذریعے اسلام کا پیغام عام کرنے، انتہا پسندی اختیار کرنے، نیز عدم برداشت کے ہر رویّے کی شدید مذمّت کرتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
اسلام نے تمام امّتِ مسلمہ کو جسدِ واحد اور ایک برادری قرار دیا۔ اخوت و اجتماعیت کا یہ رنگ اسلامی عبادات کی مظہر ہے، خصوصاً حج کے موقعے پر بلا تفریقِ رنگ و نسل امّتِ مسلمہ کا ہر فرد مساوات کا عملی مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ نماز بھی مسلمانوں کی اخوت واجتماعیت کا مظہر ہے، قرآنِ کریم نے تمام اہلِ ایمان کو بھائی بھائی قرار دیا ہے، اس سے ان کے مابین وحدت، یگانگت اور اخوت و اجتماعیت کا اظہار کیا ہے، ارشادِ ربّانی ہے:(ترجمہ) ’’بلاشبہ، مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں میں صلح کروادیا کرو، اور خدا سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘
سورۂ آلِ عمران میں ارشاد فرمایا گیا:’’اور سب مل کر اللہ کی (ہدایت کی) رسّی کو مضبوط پکڑے رہنا اور باہم تفرقہ نہ ڈالنا (متفرق نہ ہونا) اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے، تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح خدا تمہیں اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔‘‘
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، تم ایمان داروں کو باہمی رحمت و محبت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، جب کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے (تو اس کے سبب) تمام بدن کے اعضاء بیماری اور تپ کو بلاتے ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے مدینۂ منوّرہ ہجرت فرمانے کے بعد جو اہم اقدام فرمایا، وہ انصار و مہاجرینؓ کے درمیان رشتۂ اخوت کا قیام تھا۔
خود دربارِ نبوی ؐ مختلف نسلی، نسبی و ملکی پھولوں کا گل دستہ تھا، اس میں عداس نینوائیؓ، صہیب رومیؓ، ذوالکلاع حمیریؓ، کرز فہریؓ، بلال حبشیؓ، ضماد ازدیؓ، عدی طائیؓ، ابوذر غفاریؓ، ابو حارث مصطلقیؓ، سلمان فارسیؓ، طفیل دوسیؓ، شمامہ نجدیؓ، ابو عامر اشعریؓ اور سراقہ مدلجیؓ پہلو پہلو بیٹھے نظر آتے تھے اور ہر فرد اپنے ملک اور قوم کی نمائندگی کرتا تھا۔کسی شخص کی کام یابی اور بلندی کی کلید ہی یہ ہے کہ وہ جذباتیت کے عالم میں بھی انتہائی عقل و دانش سے فیصلے کرے۔
واضح رہے، انفرادی زندگی میں تحمّل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی، لیکن اس کی اہمیت اجتماعی مواقع پر مزید بڑھ جاتی ہےکہ اگر عمومی معاملاتِ زندگی میں تحمّل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے توزندگی گزارناہی مشکل ہوجائے۔ پھر اپنی شخصیت نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے اشد ضروری ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔
رسولِ اکرم ﷺنے جب نبوت کا اعلان کیا، تو مکّے کا سارا ماحول آپ کے لیے اجنبی ہوگیا لوگ جن کے درمیان آپ کا بچپن اور جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اورعشاق تھے، وہ آپ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے۔ بعدازاں، عرب کی اجڈ قوم کے دل و دماغ میں اسلام اور آپﷺ کی بے پناہ محبت اتنی جلدی کیسے رچ بس گئی اور کس طرح اَن جانے دشمنوں نے دل و جان سے آپﷺ کی امارت واطاعت قبول کرلی، یقیناً اس پر انسانی عقل دَنگ رہ جاتی ہے۔
مگر سیرتِ طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم ﷺ کی شیریں زبان، اعلیٰ اخلاق، بہترین لب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصّہ ہے، وہیں آپﷺ کا صبر و تحمّل، بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ، صبرو تحمّل کا وصف انتہائی مفید و معنی آفرین ہے، اس سے سعادت و بھلائی اور سکون و اطمینان کے مواقع تو ہاتھ آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور اللہ نے اپنا یہ دستور اور قانون بہت پہلے اِن الفاظ میں بیان فرمادیا:’’ہم نے ان میں سے بعض کو قائد اور امام بنایا، جو ہماری باتوں سے لوگوں کو واقف کرواتے تھے، یہ اُن کے صبر کا بدلہ ہے۔‘‘
رسولِ اکرم ﷺ کی تو پوری زندگی ہی صبر و تحمّل سےعبارت ہے،اس لیے خصوصاً امتِ مسلمہ کے لیے لازم ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمّل سے کام لے۔ یوں بھی ایک پُرسکون اور کام یاب زندگی کے لیے صبر و تحمّل اور قوتِ برداشت بنیادی عناصر ہیں۔ جب کہ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم وقتی طور پر جذبات کی رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دوررس نگاہ متاثر ہوتی ہے اور سوچ و تدبّر کا مزاج نہیں رہتا۔
سو، موجودہ حالات میں خاص طور پر سیرتِ نبویؐ کے اس پہلو کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ عہدِ حاضر میں کُل کائنات کے لیے بالعموم اور ہمارے لیے بالخصوص یہی درسِ اتّحاد و یگانگت اور جذبۂ اخوت و اجتماعیت کام یابی کی ضمانت اور فلاح کی نوید ہے۔ بقول علّامہ اقبال؎ یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی.....اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی.....بتانِ ر نگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہوجا.....نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی۔
یاد رہے، ملک سے انتہا پسندی کے خاتمے، عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نفی فرقہ واریت سے نجات اور دینی و ملّی یگانگت کے لیے ازحد ضروری ہے کہ اسلام کے اخوت و مساوات اور اتّحاد و یگانگت کے پیغام کو عام کیا جائے۔ صبر و برداشت ،عفوودرگزر اور رواداری کے ضمن میں اسوۂ نبوی ﷺ اور سیرتِ طیّبہ کی پیروی کی جائے کہ یہی درحقیقت فلاح کا راستہ اور نجات کی یقینی ضمانت ہے۔