سی پیک کے نام سے معروف چین پاکستان اقتصادی راہداری پروجیکٹ کو دونوں ممالک کے مابین اسٹرٹیجک شراکت داری کا سنگ میل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے دونوں ہی ممالک کا فائدہ ہے۔ تاہم اس وقت پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں اور انجینئرز کی حفاظت اور سیکورٹی ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے کیونکہ انہیں بلوچ علیحدگی پسندوں اور ان سے منسلک عسکریت پسند گروہوں خصوصاً تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے۔ لہٰذا پاکستان کیلئے چینی باشندوں کو درپیش سیکورٹی خطرات سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ سی پیک کو کامیاب بنا کر دونوں پڑوسیوں کے دوستانہ تعلقات کو یقینی بنایا جا سکے۔سی پیک منصوبہ دراصل چین کے’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘کا ایک اہم ترین حصہ ہے جس کا مقصد چین اور پاکستان کے درمیان سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنز نیٹ ورک کے ذریعے رابطے اور تعاون کو بڑھانا ہے۔ 62 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے سی پیک منصوبے سے توقع ہے کہ اس سے پاکستانیوں کیلئے ملازمت کے مواقع بڑھیں گے، انفراسٹرکچر بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور علاقائی انضمام کو فروغ ملے گا جس سے پاکستانی معیشت میں بہتری آئے گی۔ لیکن اس وقت اس اہم ترین منصوبے کو سنگین ترین سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گرد گروپوں، خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی یا BLA، نے پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کراچی سے گوادر تک ہونے والے ہائی پروفائل دہشت گرد حملوں نے پاکستانی حکام کی جانب سے چینی باشندوں کو محفوظ ترین ماحول فراہم کرنے کے وعدوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی چین سے پہلے ہی مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ سی پیک پر کام بند کرے اور فوراً بلوچستان سے نکل جائے۔ بلوچ علیحدگی پسند گروپ نے بار بار بیجنگ کو اسلام آباد کیساتھ مزید سی پیک معاہدے کرنے پر وارننگ دی ہے، اس کے علاوہ اس نے گوادر بندرگاہ کے منصوبے میں چینی کردار کی بھی مذمت کی ہے۔
سیکورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق، حالیہ مہینوں میں پاکستان میں چینی مفادات پر ہونے والے زیادہ تر حملوں نے پاکستان میں چینی اہلکاروں اور منصوبوں کو فراہم کی جانے والی فول پروف سیکورٹی کے افسانے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ یہ حملے بیجنگ کیلئےسیکورٹی خدشات کو مزید بڑھاتے ہیں، جو پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار ملک ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے چینی شہریوں پر دہشت گردانہ حملوں کا الزام’’غیر ملکی عناصر‘‘پر لگاتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد پاک چین تعلقات اور سی پیک منصوبوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے ان دہشت گرد حملوں سے نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے بلکہ انہوں نے چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے جو اَب فول پروف سکیورٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ایسے میں یہ افواہ بھی گرم ہے کہ چین سی پیک کی نئی اسکیموں کو آگے بڑھانے کے حوالے سے اب اتنا پر جوش نہیں رہا جتنا کہ ماضی میں تھا۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین کے دوران، خاص طور پر سی پیک فائل کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن دورے کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے جاری سرکاری بیانات میں ایسا کوئی تاثر نہیں دیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں صدر شی جن پنگ نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان’’محفوظ اور مستحکم کاروباری ماحول‘‘ پیدا کریگا جو ’’چینی‘‘ اہلکاروں اور منصوبوں کی حفاظت کی ضمانت دے گا۔ دوسری جانب چینی وزارت خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ سی پیک منصوبوں میں شامل چینی کارکنوں کو نشانہ بنانے والی دہشت گردانہ سرگرمیاں سی پیک کے خلاف ایک وسیع سازش کا حصہ ہیں۔ بیجنگ میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران ایشیائی امور کے شعبہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر شین وی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین اور پاکستان کے درمیان مثالی دوستی سی پیک منصوبے کے خلاف سازش کرنے والوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومتی قیادت نے چینی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ ان کارروائیوں کے ذمہ داروں کو سخت احتساب کا سامنا کرنا پڑیگا اور انکے نیٹ ورکس کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے گا ۔ چینی اہلکار نے اس تاثر کو سختی سے مسترد کیا کہ چین یا پاکستان سی پیک منصوبوں کے دائرہ کار کو محدود کرنے یا ان سے پیچھے ہٹنے پر غور کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستانی سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ چینی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں کے خاتمےکیلئے ایک جامع پالیسی کے تحت سخت ترین اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چینی حکام کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی جاری ہے۔ پاکستانی سیکورٹی حکام بتاتے ہیں کہ چینی باشندوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں صرف بلوچ عسکریت پسند یا تحریک طالبان ہی ملوث نہیں بلکہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں علیحدہ ریاست کے قیام کی تحریک چلانے والا گروہ بھی حصہ ڈال رہاہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں چینی عسکریت پسند 90 کی دہائی کے اواخر میں شمالی وزیرستان میں آ کر آباد ہو گئے تھے جہاں ان کا طالبان عناصر کیساتھ گہرا تعلق بن گیا جو اب تک برقرار ہے۔ اسی تعلق کی بنیاد پر بلوچ عسکریت پسند اور طالبان عناصر ان مسلم عسکریت پسندوں کیساتھ ملکر پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنیوالے چینی باشندوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے کئی عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے چین کے حوالے کر چکے ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں کا سلسلہ نہیں رک پایا، لہٰذا ضروری ہے کہ ان حملوں میں ملوث دہشت گردوں کا نیٹ ورک جڑ سے اکھاڑنے کیلئے بھرپور اقدامات کئے جائیں تا کہ پاک چائنہ تعلقات اور سی پیک پروجیکٹ، دونوں کو بچایا جا سکے۔