جرأت اظہار
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم خصوصاً منتشرالذہن نوجوانوں کو تیزی سے بدلتے عالمی حالات، خطے میں رونما ہونیوالے واقعات اور پاکستان میں افغان طالبان کی حمایت سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی بڑھتی دہشت گردی سے جنم لینے والے خدشات اور عالمی سازشوں کا تلخ تاریخی حقائق پر مبنی تجزیہ پیش کرکے تصویر کا اصل رُخ دکھایا جائے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے مناظر تو آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے۔ پچاس ہزار سے زائد فلسطینی مائیں ، بہنیں، بیٹیاں، بچے، بوڑھے شہید ہونے کے باوجود عالم اسلام کی اعلیٰ قیادت کی مکمل خاموشی، اسرائیل کو تسلیم کرانے کی عالمی مہم جوئی اور ایران کے اندر امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ایرانی ایٹمی سائنس دانوں اور پاسداران انقلاب کے سرگرم کمانڈروں کے قتل کے بعد اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے لکھ رکھی اس تحریر کو حالیہ واقعات کے پس منظر میں کچھ ترامیم کے ساتھ سپرد قلم کرکے اللہ، اس کے رسول ﷺاور بندوں کے سامنے سرخرو ہو ا جائے کہ روز محشر یہ سوال نہ ہو کہ تمہیں قلم کی طاقت سے سیدھی راہ دکھانے کی جو ذمے داری سونپی گئی تھی اسے نبھانے میں کوتاہی کیوں کی؟ سچ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو جب بھی کسی نئے بحران، المیے یا سانحے کا سامنا ہوتا ہے یا پاکستان میں کسی بھی مذہبی، لسانی، سیاسی، سماجی، صوبائی یا علاقائی بنیادپر دہشت گردی کے واقعات میں سیاسی، سماجی، علمی شخصیات اور فورسز کو بلاتفریق رنگ نسل نشانہ بنایا جاتا ہے تو پس منظر میں دو تاریخی تصاویر میں موجود امت مسلمہ کے عظیم رہنماؤں کے چہرے آنکھوں کےسامنے آجاتے ہیں۔ یہ 1974 ءلاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی دو تاریخی تصاویر ہیں۔ امہ کی عظیم دلیر قیادت 1973 ءمیں یمن جنگ کے بعد امریکہ ، اسرائیل گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اکٹھی ہوتی ہے۔ تصویر میںیہ شخصیات بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے موجود ہیں، پہلی صف میں ذوالفقار علی بھٹو کے دائیں بائیں امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی تشریف فرما ہیں۔ معمر قذافی، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بیٹھے خطبہ جمعہ سن رہے ہیں ان کے ہمراہ سعودی عرب کے فرما ں روا شاہ فیصل سنجیدہ، پرسکون بیٹھے ہیں۔ (شاہ فیصل کی تجویز پر ہی پاکستان کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کیلئے چنا گیا تھا) ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری جانب مصر کے انورسادات، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات، بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن، سوڈان کے عیدی امین سمیت چونتیس اسلامی ممالک کے وفود کے لیڈربشمول تیئس سربراہان مملکت ایک ہی صف میں بیٹھے ہیں۔ دوسری تصویر شالامار باغ لاہور میں شہریوں کی طرف سے دیئے گئے عصرانے کی ہے۔ باغ کی بارہ دری کی بالکونی پر امت مسلمہ کی پُوری قیادت ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دنیا کی سپر پاورز کو یہ پیغام دیتی ہے کہ مسلمان ایک طاقت اور مغرب دوسری طاقت ہے۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 1973 ءمیں یمن جنگ نے پوری دنیا کو دو واضح بلاکوں میں تقسیم کردیا تھا۔ عرب ممالک ایک طرف اور امریکہ مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے۔ تمام عرب ممالک نے تیل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو سپلائی بند او ر پیداوار کم کرکے قیمتیں بڑھا دیں اور دنیا کو واضح پیغام دیا کہ تیل ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے ۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں امت مسلمہ کو متحد و مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے عہدو پیماں بھی کئے جاتے ہیں۔ آپسی اختلافات ختم کرکے اسلامی بلاکس کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ پھر منظر نامہ بدلتا ہے۔ میرے تصورات میں گھومنے والی دونوں تصاویر دھندلانے لگتی ہیں۔ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کانفرنس کے چند سال بعد دشمن کس طرح امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گا۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے ٹھیک ایک سال بعد 25 مارچ 1975 ءکو سعودی فرماں روا شاہ فیصل کو امریکہ میں مقیم سوتیلے بھتیجے نے ملاقات کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا۔ شاہ فیصل کی شہادت کے پانچ ماہ سے بھی کم عرصے بعد بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن اور انکے خاندان کو فوجی بغاوت میں قتل کرکے فوج اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ بات عام ہے کہ شیخ مجیب کے قتل اور فوجی بغاوت کے پیچھے امریکی سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ شاہ فیصل کی شہادت کے بعد تصویر کا مرکزی چہرہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کی بہترین سفارت کاری، قائدانہ صلاحیتوں کے نتیجے میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی یہ تاریخی تصویر دنیا بھر کی نظروں میں آئی۔ پاکستان اور بھٹو اسلامی دنیا کے ستون بن کر ابھرے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش بننے پر پیدا ہونے والی کشیدگی میں کچھ کمی آئی۔ شیخ مجیب کے ساتھ رنجشیں کم ہوئیں، پاکستان سقوط ڈھاکہ کے بعد عالمی تنہائی سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھٹو نے ہی روس امریکہ بلاکس کے مقابلے میں تیسری دنیا یعنی اسلامی بلاک کا نعرہ بلند کیا جو یقیناً عالمی استعمار کوکسی صورت قبول نہیں تھا۔5جولائی 1977ءکو 9جماعتی قومی اتحاد کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کی متنازع کامیابی پر ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے انہیں گرفتار کرلیا اور سپریم کورٹ نے ایک متنازع فیصلے پر ان کا عدالتی قتل کردیا۔ مصر کے صدر انورسادات کو اسلامی جہاد نامی تنظیم نے سالانہ پریڈ کے معائنے کے دوران شہید کردیا۔ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادنے 2004ءمیں زہر دے کر قتل کیا۔(جاری ہے)