جب بیاباں میں اُٹھا کر آشیاں لے جائیں گے
ساتھ ہی اپنے ،بہارِ گُلستاں لے جائیں گے
شمع رُویانِ جہاں دیکھیں گے، حسرت سے ہمیں
خاکِ پروانہ اُٹھا کر ہم جہاں لے جائیں گے
آنے والی ہے وہ ساعت، آنے والا ہے وہ دن
نوچ کر دیوانے ،جس دن کہکشاں لے جائیں گے
جب بھی جائیں گے یہاں سے ،اپنی منزل کی طرف
ساتھ اپنے ہر غمِ کون و مکاں لے جائیں گے
راس آئی ہے جسے، صحرانوردی عشق میں
آپ کیسے اُس کو سوئے گلستان لے جائیں گے
رازِ دل ہونے نہ دیں گے فاش، اُلفت میں کبھی
ہم چھپا کر دِل میں غم کی داستان لے جائیں گے
ایک ہنگامہ بپا ہو جائے گا جوہرؔ وہاں
دَھجیاں ہم جیب و داماں کی جہاں لے جائیں گے
(سیّد سخاوت علی جوہر، کورنگی، کراچی)
راستے بھول گئے، دھیان ابھی باقی ہے
دل میں احساس کا طوفان ابھی باقی ہے
حوصلہ ٹوٹنے دیتے نہیں سچّے جذبے
آپ کے ملنے کا امکان ا بھی باقی ہے
جسم تو خاک میں ملنے کے لیے ہوتا ہے
روح سے روح کا پیمان ابھی باقی ہے
آشیاں پُھونک دیا، حُسنِ چمن لُوٹ لیا
کیا کوئی اور بھی ارمان ابھی باقی ہے
آپ کی یاد سے وابستہ مِری سانس کی ڈور
آپ کا مجھ پہ یہ احسان ابھی باقی ہے
میرے چہرے سے ہٹائو نہیں اپنی نظریں
تنِ بسمل میں مِرے جان ابھی باقی ہے
جب بہار آئے گی، گُل شاخوں پہ مہکیں گے ضرور
صحنِ گلشن کا نگہبان ابھی باقی ہے
(شبینہ گل انصاری، نارتھ کراچی، کراچی)
اب ڈھونڈنا مَیں نے چاہا مُجھے
کہیں دور بھٹکتا پا لیا
پا کے خود کو جو دُکھ ہوا
جو گماں میں نہ تھا، وہ ہوا
تِری خواہشوں کا یہ صلہ ملا
اس دُنیا میں تُجھے وہ ملا
ناممکن تو اب یہ ساتھ ہے
پر ترا ہم درد تِرے ساتھ ہے
(محمدصارم جمال، کورنگی، کراچی)