آدھی رات کے قریب کسی نے زور سے میرے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس سے پہلے کہ میں آنکھیں ملتے ہوئے بستر سے اٹھتا، دوبارہ کسی نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔میںنے چیخ کرکہا۔’’ اے اجنبی، میں مقروض ، میرے فلیٹ کی ٹونٹیوں، کموڈ سے لیکر درودیوار مقروض ہیں۔اگرتم نے تیسری بار دروازہ غصے سے کھٹکھٹایا تو دروازہ ٹوٹ جائے گا اور پھر آئی ایم ایف کی تفتیشی ٹیم چارٹرڈ ہوائی جہاز میں کراچی پہنچ جائے گی اور دروازہ ٹوٹ جانے کے اسباب تلاش کرنے بیٹھ جائیگی۔ تیسری بار دروازہ مت کھٹکھٹانا‘‘۔
میں نے دروازہ کھولا۔تین چار مشٹنڈے میرے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے سوچا زراورزمین کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر بینک والوں نے قرض کی اقساط وصول کرنے کیلئے غنڈے پال رکھے ہیں۔ درست ہے کہ میں نے بینک اور مالی اداروں سے مختلف نوعیت کے قرض اٹھارکھے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے کچھ کچھ کبڑا ہوگیا ہوں۔ یہ جو دوکمروں والا فلیٹ میرےپاس ہے، میں نے بینک سے قرض لیکر خریدا ہے۔یہ جو میرے پاس سکینڈ ہینڈ گاڑی ہے، وہ گاڑی بھی بینک سے قرض لیکر میںنے خریدی ہے۔ گھربھر کا فرنیچر بھی بینک سے قرض لیکرمیںنےخریدا ہے۔ میرے باورچی خانے کا تمام سامان، فرائی پین، چھوٹی موٹی دیگچیاں، مسالوں کاسامان، چولہے بھی بینک سے قرض لیکر میں نے خریدے ہیں۔ باتھ رومز میں لگی ہوئی ہرچیز تومیری ہے، مگر بینک سے قرض لیکر میںنے خریدی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ اور دانت صاف کرنےکے لیے برش بھی بینک کے پیسوں سے میں نے خریدے ہیں۔
آپ مجھے دیکھیں گے تو حیران اور اس کےبعد پریشان ہوجائیںگے۔ میراٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر آپ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا۔ میرے ولایتی جوتوں سے لیکر، میری قمیض، پتلون ، سوٹ ، ٹائیاں، موزے، اور انڈر وئیر تک میں نے بینک سے پیسے لیکر خریدے ہیں۔ بینک اور مالیاتی ادارے اس قدر آپ کو مقروض کردیتے ہیں کہ شرائط کے مطابق آپ کو لازماً مسکرانا پڑتا ہے۔ بینک اور مالیاتی اداروں کے علاوہ میں اپنے دوست احباب اور ہمسایوں کا بھی مقروض ہوں۔ورنہ آج میں بے گھر، بے سروسامان، ننگ دھڑنگ سڑکوں پر مارا مارا پھررہا ہوتا۔لگے ہاتھوں پتے کی بات آپ کو بتادوں۔ مقروض بننےسے پہلے آپ ایک بینک، ایک ادارے سے قرض لیکر دوسرے بینک اور دوسرے اداروں سے لیا ہوا قرض اتارنے کا ہنر سیکھ لیجئے۔اس طرح آپ کو قرض کی کائنات کاعلم ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ کی اور آپ کی آنے والی نسلوں کی زندگی قرض اٹھانے اور قرض اتارنے کے کاروبار میں ہنسی خوشی گزر جائے گی۔چاروں مشٹنڈے لحیم شحیم تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ عجیب قسم کی گھناؤنی خناسیت تھی ان کے سپاٹ چہروں پر۔ ہنسنا تودور کی بات ہے، لگتا تھا وہ لوگ صدیوں سے مسکرائے تک نہیں تھے۔ بغیر کچھ کہے سنے چاروں مشٹنڈے آلتی پالتی مارکر صوفوں پربیٹھ گئے۔ اسقدر بھاری بھرکم تھے وہ لوگ کہ قرض کے پیسوں سے خریدے ہوئے صوفے چیخ اٹھے۔مشٹنڈےکچھ دیر تک میری طرف گھور گھور کردیکھتے رہے۔ لگ رہا تھاکہ وہ بیرون ملک سےقرض کی وصولی کی اعلیٰ تعلیم وتربیت لیکر آئے تھے ۔ اس نوعیت کے خرانٹ مشٹنڈے آئی ایم ایف والے اپنی ملازمت میں رکھتے ہیں۔ بظاہر حکومتیں آئی ایم ایف سے بھاری بھرکم قرض لیتی ہیں، مگر لیے ہوئے قرض کی پائی پائی اللہ سائیں کی مخلوق پر تقسیم کردی جاتی ہے۔ ہماری آنے والی پانچ سونسلیں آئی ایم ایف کا قرض اتارتی رہیں گی۔مشٹنڈوں کی خاموشی اور عقابی نگاہیں مجھے بے چین کرنے لگیں۔ میں گھبرا گیا۔ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے میں نے مشٹنڈوں سے پوچھا۔’’ کیا لینگے آپ؟ چائے، کافی، یا ٹھنڈا؟‘‘’’ چپ چاپ بیٹھے رہو اپنی جگہ ۔ مشٹنڈوں میں جوسب سے زیادہ خرانٹ دکھائی دے رہا تھا، اس نے کہا۔’’مت ہلو اپنی جگہ سے‘‘۔میں نے ہلنا جلنا چھوڑ دیا اور دبک کربیٹھ گیا۔ خاموش بیٹھے رہنے والا ایک ایک لمحہ مجھے طویل اور بھاری محسوس ہونے لگا۔ میرادم گھٹنے لگا۔ میں نے کہا۔’’ بینکوں کاقرض اتارنے کیلئے میں نے دولتمند دوستوں کومالی امداد کی درخواست دے دی ہے۔ دوستوں کی امداد ملتے ہی میں آپ کے بینک کا قرض اتار دوں گا‘‘۔
مشٹنڈے گھور کرمیری طرف دیکھتے رہے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔’’ میں حکومت پاکستان نہیںہوں‘‘۔ میں نے کہا ۔’’ میں نے آئی ایم ایف سے کسی قسم کا کوئی قرض نہیں لیا ہے‘‘۔’’ہم تیرے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں‘‘۔
خرانٹ مشٹنڈے نے کہا۔’’ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تو جوسانس لے رہا ہے اور لینے کے بعد سانس چھوڑ رہا ہے، تیری وہ سانسیں بھی مقروض ہیں‘‘۔
میں نے فوراً کہا۔’’ میرے دل کی دھڑکن بھی مقروض ہے، سر۔‘‘خرانٹ مشٹنڈے نے کہا۔’’ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تیری سوچ بھی مقروض ہے‘‘۔
اسکے بعد میرے پاس بولنے کے لیے کچھ باقی نہ رہا۔ مقروض سوچ سے میں سوچتا رہا کہ آخریہ خرانٹ مشٹنڈے کیا چاہتے ہیں؟ تب خرانٹ مشٹنڈے نے ایک فائل میرے سامنے میز پررکھی اور کہا۔’’ آسمان کو راکٹ مارکر گرانے کے لیے بھاری بھرکم قرض کی تمہاری درخواست قرض دینے والے آقاؤں نے مسترد کردی ہے۔ اپنی سرکار کی طرح تم بھی کنگال ہوچکے ہو۔ قرض کے عوض گروی رکھنے کے لیے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘