بےحد خوشی کی بات یہ ہے کہ پریشان حال قوم 78واں یومِ آزادی غیرمعمولی جوش و خروش سے منا رہی ہے۔ اِس کا اچانک سبب یہ بنا کہ اتھلیٹ ارشدندیم نے صرف چھ روز پہلے پیرس اولمپکس میں نیزہ پھینک کر 118سالہ تاریخ بدل ڈالی، گولڈمیڈل حاصل کیا اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کر دیا ہے۔ اِس عظیم الشان کامیابی کا بہت روشن اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ عوام و خواص کی جانب سے قومی ہیرو پر اِنعامات اور نیک خواہشات کی بارش ہو رہی ہے۔ اِس سے بھی کہیں زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ارشدندیم کا تعلق ایک چھوٹے شہر میاں چنوں سے ہے اور اُس نے گولڈمیڈل کا سفر ٹوٹے جوتوں کے ساتھ طے کیا ہے اور اُسے کسی بڑے خاندان یا حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ اب ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں کھیلوں کو فروغ دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں، کیونکہ اب سپورٹس بہترین سفارت کاری کا مؤثر ذریعہ ہیں۔
خوش بختی سے 78ویں یومِ آزادی کے موقع پر مسجدِ نبوی کے امام ڈاکٹر صلاح بن محمد البدیر پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اُن کی موجودگی سے عشاقِ رسولؐ کی آنکھیں وفورِ مسرّت سے چمک اٹھی ہیں۔ اِنہی مبارک ساعتوں میں دو دَرویشوں کا اپنے اہلِ وطن کے لیے ایک منفرد تحفہ تیار ہو گیا ہے۔ راقم الحروف کی عمر کے ساڑھے سترہ سال ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان گزرے ہیں اور اُن کی عیارانہ اور سفاکانہ ذہنیت کو قریب سے سمجھنے اور برتنے کے مواقع ملے، چنانچہ میرے دل میں ایک ایسی کتاب لکھنے کی آرزو پیدا ہوئی جو آنے والی نسلوں تک پاکستان سے محبت کی خوشبو پہنچاتی رہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اِس دیرینہ خواب کی تعبیر پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ کے بیش بہا تعاون سے پوری ہو گئی ہے۔
مجھے کانگریس کی عیاری اور دَروغ گوئی کا بدترین تجربہ اُس وقت ہوا جب 23 مارچ 1940ء کی شام آل انڈیا مسلم لیگ نے قائدِاعظم کی زیرِصدارت قراردادِ لاہور میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وَطن کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندو پریس نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ قرارداد انگریزوں کے دباؤ پر منظور کی ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ہندوستان پر اپنا مستقل اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ میرے ہم جماعت ہندو طلبہ بھی یہی راگنی الاپنے لگے۔ مَیں باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا، اس لیے مَیں نے اُن کے پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ انگریز تو سوویت یونین کی جنوب کی طرف ممکنہ پیش قدمی روکنے کیلئےہندوستان اور اُس کی افواج کو ہر قیمت پر متحد رکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ مسلسل یہی دہائی دیتے رہے کہ مسلمان ہماری گاؤ ماتا کے ٹکڑے کر دینا چاہتے ہیں۔ قراردادِ لاہور کے بعد غیرمسلم طلبہ کے رویّوں میں کھلی دشمنی غالب آتی گئی۔
اِس فکری کشمکش کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اپنی تاریخ کے علاوہ ہندو مذہب کے مطالعے کا بھی شوق پیدا ہوا۔ ہمارے ہائی اسکول کے ہیڈماسٹر پیر مصباح الدین تھے جو کتابوں کے بہت قدردان تھے۔ اُنہوں نے اسکول کی لائبریری اچھی کتابوں سے بھر دی تھی۔ اُن میں مسلم اکابرین کی گراںقدر تصنیفات کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد، عبدالحلیم شرر اَور نسیم حجازی کے ناول بھی شامل تھے۔ دسویں جماعت تک مَیں بیشتر کتابوں کا مطالعہ کر چکا تھا اور مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ ہمارے اکابرین عظمتِ رفتہ کی بازیابی اور مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت قائم رکھنے میں بہت کوشاں رہے۔ اُن میں سرسیّد احمد خاں، سیّد امیر علی، حکیم الاُمت علامہ اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے علمی اور فکری سطح پر زبردست کردار اَدا کیا تھا جبکہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وَطن حاصل کیا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ یہاں اِس تاریخی حُسنِ اتفاق کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 3 جون 1947ء کی صبح میٹرک کا نتیجہ سنایا گیا جس میں خاکسار اَپنے اسکول میں اوّل آیا۔ اُسی شام وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند کے منصوبے کا آل انڈیا ریڈیو پر اعلان کیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو، سردار بلدیو سنگھ اور قائدِاعظم محمد علی جناح نےاُس اعلان سے اتفاق کیا۔ یوں پاکستان کا قیام ایک یقینی صورت اختیار کر چکا تھا۔
پاکستان آنے کے بعد مجھے ملازمت کے دوران دستورفہمی کے یادگار تجربات ہوئے۔ مَیں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لیا، تو تحریکِ پاکستان پر لیکچر دینے کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور سے پروفیسر عبدالحمید تشریف لاتے جو اَپنی گفتگو سے ایک سماں باندھ دیتے۔ ایک صدی کے جاںگسل اور رُوح پرور وَاقعات کی ایک فلم چلنے لگتی جو میری روح میں اترتی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا۔ میرے اندر پرورش پانے والی یہ آرزو طاقت ور ہوتی گئی کہ یہ داستانِ حریت اور میرے مشاہدات ایک جیتے جاگتے پیرائے میں قلم بند کیے جائیں۔ چند سال بعد مجھے قدرت میدانِ صحافت میں لے آئی۔ ماہنامہ اردوڈائجسٹ کی مقبولیت نے مجھے بہت مصروف کر دیا البتہ مسٹر بھٹو کے زمانے میں کچھ فرصت میسّر آئی جب ہم دونوں بھائی اڑھائی سال کے لگ بھگ جیل میں رہے، لیکن میری آرزو اِس لیے تشنہ رہی کہ ہم پر قلم اور کاغذ رکھنے کی پابندی تھی۔ پھر 2022ء میں راقم نے روزنامہ جنگ میں ’مَیں نے آئین بنتے دیکھا‘ کے عنوان سے سلسلہ وار کالم لکھنا شروع کیے اور کتاب کی پہلی جلد کا مواد جمع ہو گیا جس میں قیامِ پاکستان تک سیاسی اور آئینی جدوجہد کی ایک جیتی جاگتی اور وَلولہ انگیز تصویر تیار ہو گئی ہے۔ اِس کیلئے مَیں روزنامہ جنگ کا شکرگزار ہوں کہ اُس نے ایک سال سے زائد عرصے تک میرے کالم کمال خوش دلی سے شائع کیے۔ اب تحقیقی ادارے پائنا کے زیرِاہتمام کتاب تیار ہوئی ہے جسے قلم فاؤنڈیشن نے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔ اِس طرح قومی اہمیت کا ایک بڑا کام سرانجام پا گیا ہے جسے ہم اب اہلِ وطن کی خدمت میں 78ویں یومِ آزادی کے موقع پر پیش کر رہے ہیں۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے زیادہ تر اہلِ سیاست اور اہلِ دانش اِسے 77واں یومِ آزادی قرار دے رہے ہیں۔