حکومت نے 6اگست کو الیکشن ترمیمی بل 2024ء کو اکثریت سے منظور کروادیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترمیمی بل سے حکومت نے 12جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف حکومتی حلقے پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔ اس ترمیم کے تحت انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کروانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا اور مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حق دار نہ ہو گی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس ترمیم نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 61اور 104میں نہ صرف ترامیم کیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ان ترامیم کو 2017ء کے جس دن الیکشن ایکٹ 2017ءوجود میں آیا تھا، سے لاگو قرار دے دیا۔ بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس ترمیم کے ساتھ ایک ڈیکلیریشن بھی شامل کر دیا گیا جس کے تحت یہ ترمیم عدالتی فیصلوں، جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے بھی شامل ہیں، سے ماورا ہو گی۔ اگرچہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہوتی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آئین سے ماورا کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ اس سلسلے میںجب آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی میں ضیاالحق نے لکھوایا تھا کہ صدر جب چاہے اپنی مرضی سے پارلیمنٹ کو تحلیل کر سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے ایک معرکہ آرا فیصلے میں یہ لکھا کہ صدر کی مرضی کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ صدر جو چاہے کرے، بلکہ انکی مرضی بھی ذمہ داری اور حدود کے پابند ہو گی۔
یاد رہے کہ 12جولائی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے 13ججوں میں سے 11ججوں کی اکثریت نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کےفیصلے کو کالعدم قرار دے کر تحریک انصاف کو بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کا قانونی اور آئینی حقدار قرار دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ انتخابی نشان کے نہ ملنے کی صورت میں بھی کسی بھی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکا جا سکتا۔ اختلاف رائے رکھنے والے 2ججوں نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ اکثریتی فیصلے کے ذریعے تحریک انصاف کیلئے ریلیف تخلیق کیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف اس کیس میں فریق تھی ہی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے جو آئین اور قانون بنانے، فریم کرنے اور منسوخ کرنے کا مجاز ہے اور عدلیہ کی طاقت کا منبع بھی آئین اور قانون ہے۔ باالفاظ دیگر آئین و قانون عدالتی ادارے کو بناتے اور قائم رکھتے ہیں اور آئینی و قانونی تشریحات کے تمام معاملات حتمی طور پر عدلیہ کی تشریح سے ہی طے ہوتے ہیں اور تمام متعلقہ ادارے (سویلین اور ملٹری بیورو کریسی، حکومت اور شہری) اس تشریح کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آئین کی سماج میں جتنی زیادہ تکریم ہو گی، اتنی ہی سختی سے سیاسی عاملہ، مقننہ اور عدلیہ اپنے اپنے اداروں کی روایات کی پاسداری کریںگے۔ یورپ کی سیاسی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اداروں کی تکریم اور ارتقا دراصل جمہوریت کے تسلسل سے ہی وابستہ ہے کیونکہ آئین کی سپرمیسی کے بغیر نہ تو آزاد عدلیہ پروان چڑھ سکتی ہے اور جمہوریت کی پاسداری کے بغیر کوئی آئینی سپرمیسی قائم نہیں ہو سکتی۔ دنیا بھر میں سپریم کورٹ دو کام کرتی ہے۔ ایک تو وہ آئین کی تشریح کرتی ہے اور اسکے ساتھ جہاں آئین خاموش ہوتا ہے، وہ اس خلا کو بھی پر کرتی ہے۔ 12جولائی کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ایک نئی صورت حال پیدا ہوئی جس میں سپریم کورٹ کی واضح اکثریت نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ یہ کہنا کہ تحریک انصاف اس مقدمے میں فریق تھی یا نہ تھی، یا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کیلئے خود قانون سازی کر دی ہے، دراصل سیاق و سباق سے ماورا تجزیہ ہے۔ قانونی موشگافیوں سے بالا تر ہو کر اگر ہم اخلاقی طور پر بھی سوچیں تو کس حیثیت سے حکومتی جماعتیں ان مخصوص نشستوں کی دعوے دار ہو سکتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے زوال پذیر ہونے کی پہلی علامت اس معاشرے میں سیاسی استحکام کا ختم ہونا ہوتا ہے جس کے ساتھ معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکمران طبقے اقتدار کے حصول کیلئے ہر اس رکاوٹ کو ہٹاتے چلے جاتے ہیں جو انکے اقتدار کیلئے چیلنج ہو۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پچھلے کچھ فیصلوں سے لگتا ہے کہ عدلیہ ایک ادارے کے طور ابھر رہی ہے اور اس موقع پر حکومت کو اپنی قانون سازی کی طاقت کو اداروں کی تکریم میں حائل نہیں کرنا چاہئے۔ بعض قانونی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے 12جولائی کا فیصلہ دیتے وقت نہ صرف قانون بلکہ مکمل انصاف (Complete Justice)کے قانونی مفروضے کوبھی مدنظر رکھا۔ ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل 142کورٹ کو ایسا فیصلہ کرنے کا مجاز بناتا ہے جس میں وہ قانون اور آئین کے علاوہ Complete Justiceکو بھی مدنظر رکھ سکتی ہے۔ کیونکہ اس پٹیشن کے بارے میں کئی جگہ آئین خاموش تھا، اس لیے سپریم کورٹ نے فطری قانون کو بھی ملحوظ خاطر رکھا۔ پاکستانی معاشرہ ایک طرف تو جمہوری اداروں سے محروم ہے اور دوسری طرف عوام قرضوں اور کمر توڑ مہنگائی تلے پس رہے ہیں۔ اس صورتحال کے دوران مقننہ، عدلیہ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک میثاق جمہوریت پر متفق ہو جائیں تاکہ عوامی شعور کی سطح بلند ہو اور ہم مستقل مزاجی سے جمہوریت، انصاف اور مساوات کی اقدار کو فروغ دے سکیں۔