(شاداب خان، دُبئی)
یہاں تو کوئی نہیں ہے ستم رسیدۂ شب
ہیں دن کو پوجنے والے بھی برگزیدۂ شب
ہمارے واسطے پھیلا ہے دامنِ شب تار
ہمیں نگاہ میں رکھے ہوئے ہیں دیدۂ شب
یہ رات ہم کو مناسب ہے اور رات کو ہم
ہمِیں تو ہیں، جنہیں کہتے ہیں آرمیدۂ شب
یہ اعتقادِ سحر ڈگمگا بھی سکتا ہے
گرا نہ دینا مکمل کہیں عقیدۂ شب
مہان شب ہی تو ہے، بھاگوان شب ہی تو ہے
سو ،حرف حرف ہے شاداب ؔیہ قصیدۂ شب