تحریر: نرجس ملک
ماڈل: ضویا علی
ملبوسات: شاہ پوش (لبرٹی مارکیٹ، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
1950ء۔1960ء کی دہائیوں میں ہالی وُڈ پر بلاشرکتِ غیرے راج کرنے والی خُوب صُورت، بے باک امریکی اداکارہ، ٹاپ ماڈل، فیشن آئیکون، مارلن منرو (جسے امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ نے ہالی وُڈ کے گولڈن ایرا کی چھٹی عظیم ترین اسکرین لیجنڈ کا خطاب دیا) محض 36برس کی عُمر میں دنیا چھوڑ گئی، لیکن آج بھی ہالی وُڈ میں اُس کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ بلاشبہ وہ ایک کام یاب ترین اداکارہ تو تھی ہی، لیکن اپنی مختصر زندگی کے انتہائی تلخ مشاہدات و تجربات نے اُسے کسی حد تک ’’مفکّرہ‘‘ بھی بنا دیا تھا اور اِس کا اندازہ حال ہی میں اُس کے کچھ انتہائی دانش ورانہ اقوال پڑھ کے ہوا۔
گرچہ ہمارے یہاں اکثر اداکاروں کی باتوں کو کچھ زیادہ سنجیدہ لینے کی روایت نہیں کہ عمومی طور پر اُن کے ’’علم و دانش‘‘ کو کسی حد تک سطحی ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن مارلن منرو کے یہ چھوٹے چھوٹے جملے یا اقوال واقعتاً اپنی اندر کافی گہرائی رکھتے ہیں، خصوصاً بحیثیت عورت اُس کی سوچ و فکر، ’’عورت ذات‘‘ کی فطرت و سرشت کی بہترین غمّازی کرتی نظر آتی ہے۔
مثلاً : ’’آپ پہلے کسی لڑکی کے لیے درست جوتے تو منتخب کریں، پھر وہ آپ کو دنیا فتح کرکے دکھائے گی۔‘‘، ’’ہر عورت کی جبلّت اور وجدان اُسے بتا دیتا ہے کہ اُس کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں؟‘‘، ’’اگر آپ ہجوم میں خود کو فِٹ محسوس نہیں کرتیں، تو ممکن ہے، آپ اُسے لِیڈ کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہوں۔‘‘، ’’اگر کبھی مَیں ردِعمل نہیں دیتی، تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مَیں کچھ محسوس بھی نہیں کرتی۔‘‘، ’’خوش باش خواتین، دنیا کی خُوب صُورت ترین خواتین ہیں۔‘‘، ’’عموماً خواتین اپنی ساری زندگی خُود سے بھاگتے ہوئے ہی گزار دیتی ہیں۔‘‘، ’’وہ تمام لڑکیاں جو سِلم، اسمارٹ نہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ بدصُورت ہیں، تو اُنہیں علم ہونا چاہیے کہ وہ نہیں، دراصل یہ معاشرہ بدصُورت ہے۔‘‘، ’’ہاں مَیں غیر متحمّل مزاج، ڈرپوک اور تھوڑی خود غرض بھی ہوں۔
مَیں غلطیاں کرتی ہوں، غصّے سے بےقابو بھی ہو جاتی ہوں، یہاں تک کہ مجھے کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن اگر آپ مجھے میرے ’’بدترین ورژن‘‘ کے ساتھ قبول کرسکتے ہیں، تو ہی میرے ’’بہترین ورژن‘‘ کے بھی لائق ہیں۔‘‘، ’’کسی بھی خاتون کا سب سے خُوب صُورت پہناوا، اُس کی مسکراہٹ ہے۔‘‘، ’’مَیں کتنی ہی مضمحل، تھکی ہوئی کیوں نہ ہوں، مَیں نہیں رُکتی، مَیں تب ہی رُکتی ہوں، جب مَیں اپنا کام مکمل کرلیتی ہوں۔‘‘، ’’بیش تر خواتین چالیس سال کی عُمر کےبعد ہی خُود میں دل چسپی لینا، خُود پر توجّہ دینا شروع کرتی ہیں۔‘‘، ’’بےشک آپ کا لباس اِتنا چست ہونا چاہیے کہ پتا لگے کہ آپ عورت ہیں، لیکن وہ اتنا ڈھیلا ڈھالا بھی ضرور ہونا چاہیے کہ پتا لگے آپ ایک قابلِ احترام عورت ہیں۔‘‘، ’’میرے خیال میں تو ہم سب کو بوڑھا ہونے سے پہلے ہی جینا شروع کردینا چاہیے۔‘‘،
’’مجھے مَردوں کی دنیا میں رہنے پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں، اگرمجھے بھی بحیثیت عورت، مکمل آزادی کے ساتھ جینے دیا جائے۔‘‘، ’’کسی کے ساتھ ناخوش رہنے سے تنہا ناخوش رہنا کہیں بہتر ہے۔‘‘، ’’مَیں نے زندگی میں کبھی کسی کو بےوقوف نہیں بنایا، ہاں البتہ کبھی کبھار مَردوں کو خُود کو بےوقوف بنانے یا سمجھنے کی اجازت ضرور دی۔‘‘، ’’خُود پر بحیثیت عورت فخر کیے بغیر کام یابی کا حصول ناممکن ہے۔‘‘
’’اسٹائل‘‘ بزم کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم تو ہر طرح ہی کی خواتین کی ہر پسند، ناپسند کو مکمل طور پر پیشِ نظر رکھنے ہی کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ خواہ کسی کو سفرِ زندگی کے لیے درست جوتے میسّر ہوں، نہ ہوں، کوئی خود آگہی کے وصف سے مالا مال ہے یا نہیں، ہجوم کا حصّہ ہے یا قیادت کی اہل، زندگی کے جھمیلوں میں خوش باش ہے یا ناخوش، خود اپنی نگاہ میں خُوب صُورت ٹھہری یا محض قبول صُورت، غیر متحمل، ڈرپوک، خود غرض ہے یا متحمل، بہادر اور بےغرض، دنیا کے سامنے اپنے بہترین کے ساتھ آنا چاہے یا بدترین کے ساتھ، قد کاٹھ نکالتے ہی خُود پر توجّہ دینی شروع کی یا چالیس سال کی عُمر کے بعد آئینہ دیکھنےکا ہوش آیا، ڈھیلے ڈھالے پہناوے بھاتے ہیں یا اسکن فِٹڈ، عُمر کو ساتھ ساتھ ہی برتا ہے یا بزرگی کے بعد جینے کی اُمنگ جاگی اور یہ کہ کیا کبھی خُود کو عورت کے رُوپ میں منوانے، اپنی ذات پر فخر کرنے کا اہل بھی ثابت کیا یا نہیں، ہمارے لیے تو ہر عورت کا ہر رُوپ سروپ ہی بہت اہم، محترم ہے۔
تب ہی تو ہر ہفتے ایک سے بڑھ کر ایک رنگ و انداز کے ساتھ چلے آتے ہیں۔ تو چلیں، ذرا آج کی بزم پر بھی نظر ڈال لیں۔ بلیو شیڈ میں حسین میچنگ سیپریٹس کا ایک انداز ہے، تو مٹیالے سے رنگ کے پرنٹڈ پہناوے کا بھی جواب نہیں۔
سیاہ رنگ کے ساتھ آتشی گلابی کے خُوب صُورت کامبی نیشن میں پرنٹڈ شرٹ، پلین ٹرائوزر ہے، تو ٹرکوائز رنگ کے پرنٹڈ، ایمبرائڈرڈ نفیس سے لباس کے دل رُبا سے اسٹائل کا بھی کیا ہی کہنا اور ڈل سیاہ رنگ میں جیومیٹریکل پرنٹ سے مزیّن پہناوا تو موسم کی مناسبت سے بہت ہی خُوب انتخاب ہے۔
جو پہناوا بھی آنکھوں کے رستے دل میں اُتر جائے، سمجھیں، آپ ہی کے لیے بنا ہے اور پھر پہن کر خُود ہی اِتراتی، گاتی پھریں۔ ؎ سایا، میرا سایا وہ..... مجھ میں آن سمایا وہ..... دن نکل آیا آنگن میں..... رات گئے جب آیا وہ..... میرے لہو کی گردش میں..... چُپکے سے در آیا وہ..... میری گلی میں رات گئے..... لہراتا اِک سایا وہ..... غنچہ سا مِرے ساتھ گیا..... صُبح تلک کِھل آیا وہ..... قرب کی ہلکی بارش میں..... قوسِ قزح بن آیا وہ..... ہجر کے تپتے صحرا میں..... میری طرح کُمھلایا وہ..... کیسے کیسے رُوپ لیے..... شہرِ غزل میں آیا وہ۔