بہن نے پریشانی سے بھرپور لہجے میں والدہ سےکہا۔’’پتا نہیں، احمد کو کیا ہو گیا ہے۔ آج کل کچھ کھا پی نہیں رہا۔‘‘اِس پر مضطرب والدہ بولیں۔’’ہاں، مَیں بھی دیکھ رہی ہوں، کافی کم زور ہو رہا ہے۔آج کل پڑھائی میں کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی کھیل کُود میں۔ ذرا جا کر دیکھو، ابھی تک نیند سے بیدار بھی ہوا ہے کہ نہیں، صبح کے 10 بج چُکے ہیں۔‘‘بہن، بھائی کے کمرے کی جانب گئی، تو دیکھا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ اُس نے بھائی کو پکارا۔’’احمد! اب اُٹھ بھی جاؤ، بہت دیر ہو گئی ہے۔ امّی کب سے ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔
چلو شاباش، جلدی سے منہ دھو کر آ جاؤ۔‘‘احمد ناشتے کی میز پر آیا، تو کافی نقاہت زدہ محسوس ہو رہا تھا۔ اُس پر ایک خاص طرح کی تھکاوٹ طاری تھی۔بہن نے اُس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔’’ امّی، امّی! بھائی کی آنکھیں دیکھیں، کتنی پیلی ہو رہی ہیں۔‘‘امّی نے گھبرا کر بیٹے کی جانب دیکھا، تو واقعتاً احمد کی آنکھوں کی پیلاہٹ بہت واضح تھی۔
یہ رُوداد ایک ایسے نوجوان کی ہے، جو’’پیلیا‘‘ یا’’Acute Hepatitis‘‘ کا شکار تھا۔ ایکیوٹ وائرل ہیپاٹائٹس بالعموم ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ویسے تو کسی بھی قسم کا ہیپاٹائٹس’’ پیلیا‘‘ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم اکثریت ہیپاٹائٹس اے ہی کے سبب پیلی رنگت کا شکار ہوتی ہے۔
ہلکا بخار، متلی، کھانے کو جی نہ چاہنا، گری گری سی طبیعت، ہلکا ہلکا پیٹ درد اور کبھی کبھی الٹیاں ہونا اس کی اہم علامات ہیں۔ وہ افراد جو تمباکو نوشی کرتے ہیں، اُنھیں اکثر منہ کا ذائقہ خراب ہوجانے کی شکایت ہوجاتی ہے۔
بعدازاں، آنکھوں اور پیشاب کی زردی سے یہ بیماری سامنے آتی ہے۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جگر کی اکثر بیماریوں میں اِسی طرح کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اب یہ’’ Acute Viral Hepatitis ‘‘ کی وجہ سے ہے یا کسی اور بیماری کے سبب، اِس کا فیصلہ کوئی ماہر معالج ہی کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اِس مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹس کے لمبے چوڑے مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا۔
مریض کی میڈیکل ہسٹری، طبّی معائنے اور ایک آدھ ٹیسٹ سے یہ بیماری بآسانی تشخیص ہو جاتی ہے۔ چند بنیادی ٹیسٹس کے علاوہ، LFT( Liver Function Test)اِس مرض کی تشخیص اور صحت کے تعیّن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اِس ٹیسٹ کے ضمن میں دو امور کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑتا ہے۔ پہلی چیز Biluribon ہے، گو کہ یہ ذرا تاخیر سے دیر میں بڑھنا شروع ہوتا ہے، تاہم یہی پیشاب اور آنکھوں کی پیلاہٹ کا سبب بنتا ہے۔ یہ عام طور پر 1.5اور2سے کم رہتا ہے، البتہ وائرل ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں 5سے 15تک جا سکتا ہے۔ دوسری اہمیت کی حامل چیز SGPTیا ALT ہے۔
یہ بیماری کے ساتھ ہی بڑھنا شروع ہوتا ہے اور جُوں جُوں صحت میں بہتری آتی رہتی ہے، اِس کی سطح بھی معمول پر آنے لگتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب مریض اپنی صحت میں بہتری محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کی بھوک واپس آنے لگتی ہے۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ شروع میں Biluribon کم اور SGPTیا ALT بڑھا ہوا ہوتا ہے، مگر مرض بہتر ہونے لگتا ہے، تو ایس جی پی ٹی تو آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آنے لگتا ہے، مگر Biluribon مستقلاً بڑھتا رہتا ہے۔
سو، اِس صُورتِ حال سے گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اِسی طرح ایک اور ٹیسٹ، پی ٹی بھی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ انسان کے جسم میں خون جمانے کی اہلیت کا ٹیسٹ ہے، جس کا براہِ راست تعلق جگر کی صحت سے ہوتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں اُن ٹیسٹس کی، جن کا تعلق براہِ راست مرض کی درست تشخیص سے ہے کہ آیا یہ ہیپاٹائٹس اے کی وجہ سے ہے یا ہیپاٹائٹس سی کے سبب۔ اِس مقصد کے لیے Hev Igm اور Hav Igm ٹیسٹس کروائے جاتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے ڈاکٹرز غیر ضروری طور پر بھی یہ ٹیسٹس تجویز کردیتے ہیں، جس سے سوائے مریض کے پیسے کے زیاں کے، کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ وائرل ہیپاٹائٹس کے ہر مریض کے جگر کا الٹرا ساؤنڈ ہونا ضروری ہے اور یہ الٹرا ساؤنڈ کسی مستند لیب یا ماہر ڈاکٹر ہی سے کروانا چاہیے تاکہ مکمل درست رپورٹ سامنے آسکے۔
اب بات ہوجائے علاج کی، تو یاد رہے کہ وائرل ہیپاٹائٹس کے مریض کو کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آرام ہی اس مرض کا بہترین علاج ہے، پر یہ بات مریضوں کو سمجھانا خاصا دشوار ہو جاتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ خود بخود صحیح ہونے والا مرض ہے۔
متاثرہ فرد وقت گزرنے کے ساتھ خود ہی صحت مند ہو جاتا ہے۔ ہاں، البتہ اگر مریض کو اُلٹیاں ہو رہی ہوں، تو اُسے کم یا بند کرنے کی دوا تجویز کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یاد رہے، Acetominophen نامی دوا، جو مارکیٹ میں پیناڈول یا کیل پول کی صُورت میں ملتی ہے، اِس بیماری میں اُس کا استعمال شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ (مضمون نگار، ڈاؤ اسپتال، اوجھا کیمپس، کراچی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ہیں)