• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ حسینہ کی خفیہ جیلوں کی تفصیلات منظر عام پر آنے لگیں


فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

بنگلادیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے 16 سالہ دور کے بعد خفیہ جیلوں کی تفصیلات منظر عام پر آنے لگیں۔

بنگلادیشی اخبار کے مطابق شیخ حسینہ کے 16 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے بعد جبری گمشدگیوں کے شکار افراد نے خفیہ جیلوں کی خوفناک تفصیلات بیان کرنا شروع کردیں۔ ان افراد کو ’آئینہ گھر‘ نامی جیلوں میں بےحد غیر انسانی حالات میں رکھا گیا۔

متاثرین نے بتایا کہ یہ جیلیں ڈائریکٹریٹ جنرل آف فورسز انٹیلی جنس (ڈی جی ایف آئی) کے زیر انتظام تھیں، جو وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ ان جیلوں میں قیدیوں کو مکمل تنہائی میں رکھا جاتا تھا، جہاں بیرونی دنیا کی کوئی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق شیخ حسینہ کے دور میں 600 سے زائد جبری گمشدگیاں رپورٹ ہوئیں۔ جیل سے رہائی پانیوالے افراد کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور متاثرین کی جانب سے حکومت سے ان خفیہ جیلوں کے بارے میں جوابدہی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ڈی جی ایف آئی کے زیر انتظام خفیہ حراستی مراکز:

جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی داستانوں کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان میں سے کئی حراستی مراکز ڈی جی ایف آئی کے زیر انتظام چلائے جاتے تھے، جو وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔

 ڈی جی ایف آئی کے سربراہان براہ راست وزیراعظم اور ان کے سیکیورٹی مشیر کو رپورٹ کرتے ہیں۔ یہ مراکز اپنی مکمل تنہائی کےلیے بدنام ہیں، جہاں قیدیوں کو باہر کی دنیا کی روشنی تک دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے ایک جیسے حالات کا شکار:

شیخ حسینہ واجد کے دور  میں جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے افراد مختلف عمروں، سیاسی اور سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کی کہانیاں خفیہ جیلوں میں گزارے گئے وقت کی تفصیلات حیران کن حد تک ایک جیسی ہیں۔

یہ قیدی موٹی دیواروں اور لوہے کے دروازوں والی جیلوں میں رکھے گئے جہاں انہیں مکمل تنہائی میں رکھا گیا اور انہیں باہر کی دنیا کی روشنی سے بھی محروم کیا گیا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید