• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اذان کی آواز بھی سننے نہیں دی جاتی، شیخ حسینہ کی خفیہ جیل سے رہا ہونیوالے وکیل کی روداد

شیخ حسینہ واجد، احمد بن قاسم
شیخ حسینہ واجد، احمد بن قاسم

بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کے دور میں اسیری کے 8 سال گزارنے کے بعد رہائی پانے والے وکیل احمد بن قاسم نے بتایا کہ قید میں انہیں اذان کی آواز بھی نہیں سننے دی جاتی تھی۔

احمد بن قاسم نے خفیہ جیل سے رہائی پانے کے بعد اسیری میں گزارے گئے لمحات کا احوال سناتے ہوئے کہا کہ وہ اس عرصے میں آئینہ گھر نامی جیل میں قید تھے اس دوران ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔

 غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق احمد بن قاسم کو ان کے والد اور جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کی وجہ سے اغوا کیا گیا تھا، جب وہ اپنے والد کا کیس لڑ رہے تھے، اغوا کے 4 دن بعد ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

شیخ حسینہ واجد کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد رہائی پانیوالے احمد بن قاسم نے بتایا کہ انہیں اسیری میں گزارے 8 سال بعد آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑیاں پہناکر پہلی بار خفیہ جیل آئینہ گھر سے باہر نکالا گیا، میں نے پستول کی آواز سن کر اپنی سانس روک لی تھی، مگر انہوں نے مجھے مارنے کی بجائے ڈھاکا کے مضافاتی علاقے میں پھینک دیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قید کے دوران انہیں ہمیشہ زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا، جیل کے اندرونی حالات انتہائی سخت تھے، جبکہ قید کے دوران تیز آواز میں موسیقی بھی چلائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے میں اذان کی آواز بھی نہیں سن پاتا تھا۔

قاسم نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک دیندار مسلمان ہیں، قید کے دوران انہیں نماز کے اوقات جاننے سے بھی دور رکھا گیا تھا، جبکہ ان کے اغواء کو کتنا وقت گزر گیا انہیں اس بات کا بھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا تھا، اور جب موسیقی کی آواز بند ہوجاتی تھی تو وہ دوسرے قیدیوں کی تکلیف دہ آوازیں سنتے تھے۔

بنگلادیشی وکیل کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ، میں نے محسوس کیا کہ قید میں اکیلا نہیں ہوں، وہاں میں نے لوگوں کے رونے کی آوازیں اور چیخیں بھی سنی تھیں۔

احمد بن قاسم نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ انہیں قید کرنے کا سبب ان کے والد کی جنگی جرائم کے الزام میں سزا تھی، بعد میں انہیں پھانسی دے دی گئی، جس کا علم مجھے تین سال بعد ہوا۔

جیل سے آزادی ملنے کے بعد قاسم نے اپنی رہائی کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کے احتجاج کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن ہوسکی ہے، جس کے بعد میری زندگی میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔

جس وقت احمد بن قاسم کو قید میں ڈالا گیا وہ 32 سال کے تھے اور  لندن بار کے ممبر بنے تھے اور اپنے والد کیلئے عدالت میں قانونی جنگ بھی لڑرہے تھے، اس دوران سادہ کپڑوں میں چند لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

اس حوالے سے احمد بن قاسم کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ مجھے اس طرح غائب کردیں گے، اس کے چند دنوں بعد ہی میرے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی، جس کا مجھے 3 سال بعد پتا چلا تھا وہ بھی جیلر نے غیر ارادی طور پر مجھے بتا دیا تھا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید