• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سوچ کہ آدھی آبادی کو فراموش کرکے ملکی معیشت ترقی کر سکتی ہے یا معاشرتی توازن قائم ہو سکتا ہے تو یہ بات سرا سر ملک دشمنی ہے۔ کوئی یہ سمجھے کہ ہمارے ہاں خواتین باصلاحیت نہیں تو وہ امریکہ کی حال ہی میں صدارتی حیثیت سے نامزدگی قبول کرنے والی کملا ہیرس سے پوچھ لے یا پھر سابق صدارتی امیدوارہلیری کلنٹن سے دریافت کر لے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو کیا تھیں، کون تھیں اور کہاں سے تھیں اور وہ کیسے بنیں! راوی تاحال مجبور ہے یہ لکھنے کیلئے کہ بےنظیر بھٹو کے خلاف اُس وقت کے’’جنرل فیض حمید‘‘ یعنی جنرل حمید گل نے پورے ملک کی پارٹیاں اکٹھی کرکے اور اسلام کا نام بیچ میں شامل کرکے ایک اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تھا جس نے بےنظیر بھٹو کی 94قومی اسمبلی کی نشستوں کے مقابلہ میں 56نشستیں حاصل کیں۔ یہی نہیںراوی کو ہنوز یہ لکھنا پڑتا ہے کہ تاریخِ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سرتوڑ کوشش کے خلاف جو 1988 میں فاتح قرار پایا وہ بےنظیر بھٹو ہی ہیں! دوسرے لفظوں میں آج تک بی بی کے علاوہ کوئی اسٹیبلشمنٹ کو الیکشن میں شکست سے دوچار نہیں کر سکا۔آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹینا لیگرڈ نے کہا تھا ’’اگر لیہمن برادرز کی جگہ لیہمن سسٹرز ہوتیں تو ہمیں اتنے بڑے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔‘‘ واضح رہے کہ ہنری لیہمن، اعمانوایل لہیمن اور مائیر لیہمن برادرز نے 1850میں گلوبل فنانشل سروسز فرم بنائی اور 2008 تک عالم میں سرمایہ کاری میں راج کیا تاہم 2008 میں دیوالیہ پن کا شکار ہوئے۔ اس کا ہیڈ آفس امریکہ میں تھا... بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی کوچیئر میلنڈا گیٹس نے کہا یہی وقت ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کو خواتین کو خصوصی ایجنڈا پر لانا ہوگا۔ ارجنٹینا کی صدر کرسٹینا فرنینڈس کے مطابق خواتین کو فیصلہ سازی اور انٹرپرنیورشپ میں لائے بغیر گزارا ہی نہیں! انجیلا مارکل جو 2005 تک جرمنی کی حکمران رہی ( پی ایچ ڈی فزیکل کیمسٹری)، بقول ان کے ’’آزادی نام ہی معیشت اور معاشرہ سازی کے نچوڑ کا ہے‘‘۔

کیا معاشرہ سازی عورت کے بغیر ممکن ہے؟ پاکستان میں کتنے فی صد خاندانی نواب ہیں؟ ریاست تو دور کی بات کیا عورت کو اعتماد اور پروفیشنلزم دئیے بغیر خاندان بھی چل سکتا ہے؟

خوش قسمتی یہ خواتین کو پروجیکشن اور مواقع دئیے جا رہے ہیں بدقسمتی یہ کہ موقع پانے والی خواتین نے ریسرچ، مطالعہ اور اسپیشل ہنرمندی سے وہ استفادہ کیا ہی نہیں جو مطلوب و مقصود تھا۔ چلئے کم کو موقع ملا ہو گا لیکن جنہیں ملا انہوں نے اس احساس کے باوجود کہ چیلنجز زیادہ ہیں کتنی حقیقی کوشش کی؟ مَردوں اور معاشرے کے کئی قصور ہوں گے مگر موقع پالینے کے بعد بھی اسمبلی میں کوانٹِٹی ہے کوالٹی کیوں نہیں؟ کتنی ممبران اسمبلی ایجنڈا پڑھتی اور اس کا حصہ بنتی ہیں؟ مانا کہ اس میں پارٹی قیادت بھی کچھ گھرانوں کو راضی کر کے’’غیرخصوصی‘‘ خواتین کو خصوصی اہمیت دے کر اسمبلیوں اور سینٹ میں لاتی ہے، خیر، پارلیمانی کمیٹیوں کی خواتین ممبر بھی ہوتی ہیں لیکن بزنس میں شمولیت کے باوجود وہ دلچسپی کہاں ہے جو ہونی چاہئے؟ زبیدہ جلال سے ماروی میمن تک ماڈرن خواتین کی تھیوریز پر تجربات اور فلاسفی پر بازگشت یا عمل کی صورتیں کہاں ہیں؟ اسمبلی میں شور و غل کے بجائے ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، زرتاج گل، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا یا دینی جماعتوں کی خواتین کی پاور فُل آئیڈیالوجی کی گونج جو آئیڈیاز اور کریٹیکل تِھنکنگ پر مشتمل ہو وہ ریکارڈ کہاں ہے؟ انوشہ رحمان ، زیب جعفر ہو یا شازیہ فرید انہیں جو بار بار موقع ملا ہے انہیں اب میچور قانون سازوں سا کردار ادا کرنا ہو گا اور شیری رحمان، شازیہ مری، نفیسہ شاہ اور مریم اورنگزیب سے مفید پارلیمانی اور قومی چیزیں سیکھنے میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ آنے والے دنوں میں آصفہ بھٹو زرداری کو بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا ہوگا اور اسی امتحان کا سامنا وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو بھی ہے۔

ہم تو کہتے ہیں اسمبلیوں میں پارٹی پلیٹ فارم کو جزوی بالائے طاق رکھتے ہوئے خواتین کو ایک مشترکہ فورم عمل میں لانا چاہئے جہاں خواتین کیلئے بہتر قانون سازی، سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم و تربیت پر سنجیدہ اور فکری نشستیں عمل میں آئیں۔ تعلیمی معیار کے تناظر میں دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ہیں لیکن اس تعلیم سے گر قوم استفادہ نہ کر پائی اور ان خواتین نے جلد پارلیمانی امور کو سیکھ نہ لیا تو ترقی کی منزل دور ہوتی جائے گی۔ یقیناً سمیرا ملک اور عائلہ ملک سی خواتین نے اپنے حلقوں کیلئے کام کیا ہوگا لیکن کیا ان کے کریڈٹ پر قانون سازی و ایجنڈا سازی اور سوال سازی کا بھی کوئی ریکارڈ ہے؟ کیا آج شزا خواجہ کی وزارت اور کارکردگی کے حوالے سے رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب والا معاملہ ہے؟ انہیں سائرہ افضل تارڑ سے سیکھنا چاہئے ! یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ جماعتوں کی جانب سے طشتری میں رکھ کر ٹکٹ یا نشست تو مل سکتی ہے، تنخواہ اور مراعات بھی آن بان سے مل سکتی ہیں لیکن پیشہ ورانہ کامیابی، فرض کی ادائیگی اور کارکردگی طشتری میں رکھ کر نہیں ملتے ان کیلئے خود کرنا ، لڑنا اور مرنا پڑتا ہے! بقول منو بھائی: ’’ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے / عشق سمندر ترنا پیندا اے/ سُکھ لئی دُکھ وی جرنا پیندا اے / حق دی خاطر لڑنا پیندا اے /جیون دےلئی مرنا پیندا اے‘‘

سیاسی خواتین کی بات موثر ہوتی ہے لہٰذا انہیں پوسٹ ٹرُتھ اور گیس لائٹنگ کے سیاست میں مہلک استعمال کا ادراک ہونا چاہئے، ضروری ہے وہ اس کا بھی پرچار کریں کہ بیٹی اور بہن کی پیشہ ورانہ تعلیم پر قوم کتنا خرچ کرتی ہے اور اس تعلیم سے قومی و خاندانی سطح پر استفادہ نہ ہو تو ممکن نہیں معاشرہ سنور سکے۔ پارلیمانی خواتین اس پر بھی آواز اٹھائیں کہ خواتین یونیورسٹیوں میں جو ممبرز سنڈیکیٹ ایجنڈا پڑھ کر نہیں جاتیں وہ کوڑھ کی کاشت کو تقویت بخشتی ہیں۔ باصلاحیت خواتین اساتذہ کے ہوتے ہوئےبھی خواتین یونیورسٹیوں میں سرد جنگیں، کمزور کارکردگی، ریسرچ کا فقدان ملک و ملت کا سرمایہ اور وقت تباہ کر رہے ہیں، خواتین یونیورسٹیاں حکومتی تحفے ہیں جس کی حفاظت اور افادیت خواتین ہی کی ذمہ داری ہے۔

قصہ مختصر، خواتین کو احترام نہ دینا اور پارلیمانی خواتین کا اپنا کردار ادا نہ کرنا ’’ملک دشمنی‘‘ کے زُمرے میں آتا ہے!

تازہ ترین