بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2024-25ء کے پہلے مہینے جولائی میں 3ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جو گزشتہ مالی سال 2023-24 میں جولائی میں موصول ہونیوالی ترسیلات زر سے 48 فیصد زیادہ ہیں۔ تسلسل سے 3 ارب ڈالر ماہانہ کی ریکارڈ ترسیلات زر کی وجوہات میں مستحکم ایکسچینج ریٹ، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی، بیرونی ذخائر میں اضافہ، ڈالر کے آفیشل اور نان آفیشل ریٹ کے فرق میں کمی، ہنڈی اور ڈالر کی اسمگلنگ پر حکومتی کریک ڈائون شامل ہے۔ رواں مالی سال جولائی میں موصول ہونے والی ترسیلات میں سب سے زیادہ 761ملین ڈالر سعودی عرب (56 فیصد اضافہ)، دوسرے نمبر پر611 ملین ڈالر متحدہ عرب امارات (94 فیصد اضافہ)، تیسرے نمبر پر 443 ارب ڈالر برطانیہ (45 فیصد اضافہ) اور چوتھے نمبر پر 300 ملین ڈالر امریکہ (24 فیصد اضافہ) سے موصول ہوئیں۔ اگر دیگر خلیجی ممالک کی ترسیلات کو شامل کیا جائے تو آدھے سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب، یو اے ای اور GCC ممالک سے موصول ہوئیں۔ یاد رہے کہ مالی سال 2022-23ء میں پاکستان کو مجموعی طور پر 4 ارب ڈالر کی ترسیلات کم موصول ہوئی تھیں تاہم گزشتہ مالی سال 2023-24 ہمیں 30.3ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔ ترسیلات زر پاکستان بھیجنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر سعودی عرب سے 7.4 ارب ڈالر، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات سے5.5 ارب ڈالر، تیسرے نمبر پر برطانیہ سے 4.5 ارب ڈالر، چوتھے نمبر پر امریکہ سے 3.6 ارب ڈالر، پانچویں نمبر پر یورپی یونین سے 3.5 ارب ڈالر، چھٹے نمبر پر GCC ممالک سے 3.2 ارب ڈالر اور دیگر ممالک سے 4.2ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔ 2022-23 ء میں ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر کی کمی کی وجہ ڈالر کے آفیشل اور نان آفیشل ریٹ میں 30 روپے کا فرق تھا جس کے باعث بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ہنڈی اور حوالہ سے اپنی رقوم پاکستان بھجوائیں۔
قارئین ! 2017ءسے 2021تک اوسطاً 323000 پاکستانی ملک سے باہر ملازمتوں کیلئے گئے جبکہ گزشتہ دو سال 2022 ءاور 2023 ء میں یہ تعداد بڑھ کر دگنی سے زائد 850000 ہوگئی۔ اگر ہم 2019 سے 2023 کے دوران اُن 10 ممالک کا جائزہ لیں جہاں سب سے زیادہ پاکستانی ورکرز گئے تو 50 فیصد سے زائد ورکرز سعودی عرب اور 27 فیصد ورکرز متحدہ عرب امارات گئے جس کے بعد عمان، قطر، بحرین، ملائیشیا اور دیگر ممالک آتے ہیں جبکہ ترسیلات زر بھیجنے والے سرفہرست 10 ممالک میں 24 فیصد سعودی عرب، 17 فیصد متحدہ عرب امارات، 15 فیصد برطانیہ اور 12 فیصد امریکہ شامل ہیں جس کے بعد عمان، بحرین، قطر، کویت، اٹلی، آسٹریلیا اور جرمنی آتے ہیں۔ دنیا میں ترسیلات زر کی رینکنگ کے مطابق سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والا ملک بھارت ہے جو سالانہ 87 ارب ڈالرکی ترسیلات وصول کرتا ہے، دوسرے نمبر پر چین 53 ارب ڈالر، تیسرے نمبر پر میکسیکو 53 ارب ڈالر، چوتھے نمبر پر فلپائن 36 ارب ڈالر، پانچویں نمبر پر پاکستان 31 ارب ڈالر، چھٹے نمبر پر مصر 31 ارب ڈالر، ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش 23 ارب ڈالر اور آٹھویں نمبر پر نائیجریا 18 ارب ڈالر شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ، انگریزی زبان جاننے اور تکنیکی ہنرمندی کے باعث فلپائن اور بھارت کے ورکرز کو دنیا بھر میں ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک سب سے زیادہ بھارتی اور فلپائنی ورکرز مقیم ہیں جس کا اندازہ ان ممالک کو بھیجی جانے والی ترسیلات سے لگایا جاسکتا ہے۔
دنیا میں زرمبادلہ 4 ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ پہلے نمبر پر ایکسپورٹس، دوسرے نمبر پر ترسیلات زر، تیسرے نمبر پر بیرونی سرمایہ کاری (FDI) اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی صورت میں چوتھے نمبر پر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول ہے جو اس وقت پاکستان کی صورتحال ہے۔ اگر ہم ملکی ایکسپورٹس، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن بدقسمتی سے ہم پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے پر مجبور ہیں اور ان قرضوں پر سود کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک پہنچ گیا ہے۔ رواں مالی سال 2024-25 میں ہمیں 20 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ان ادائیگیوں میں 12 ارب ڈالر کے سیف ڈپازٹس دوست ممالک چین، سعودی عرب اور یو اے ای رول اوور کرنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ پاکستان نے سعودی عرب سے اضافی 1.5 ارب ڈالر کی درخواست کی ہے جبکہ 4 ارب ڈالر خلیجی ممالک کے کمرشل بینکوں اور ایک ارب ڈالر انٹرنیشنل بانڈز کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی افرادی قوت کو ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے ہنرمند بناکر بیرون ملک بھیجے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ اجرتوں پر ملازمتیں مل سکیں جس سے ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوسکے۔ میں ترسیلات زر میں اضافے کیلئے اسٹیٹ بینک کے اُن اقدامات کو سراہتا ہوں جس کے باعث پاکستان میں ترسیلات زر کو فروغ ملا۔