نامور سفارت کار عبد الحمید بھٹہ نے کچھ نوجوانوں کے اشعار بھجوائے ہیں اور ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے، دیکھیں! نوجوان کیسے شعر کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے پہلا شعر مہر فام کا بھیجا ہے، شعر کچھ اس طرح ہے ’’سواری صرف ایک اتری ہے اور میں ...بھری گاڑی میں تنہا رہ گیا ہوں‘‘ دوسرا شعر شعیب احمد شاہد کا ہے’’ دل سے نکلا تو یہ افواہ اڑا دی اس نے... کوئی اس گھر میں نہ جانا کہ وہاں سایہ ہے‘‘ تیسرا شعر رضا المصطفیٰ کا ہے’’ دھوپ کے راستے میں پڑتا تھا... پیڑ جو کاٹا تم نے عجلت میں ‘‘بھیجے گئے اشعار میں سے چوتھا شعر اجمل فرید کا ہے’’ دن بدن بڑھتے چلے جاتے ہیں گھر کے جالے... یعنی مکڑی کو بھی محسوس نہیں ہوتا میں’’ پانچواں شعر ہمایوں خان کا ہے’’ آدمی شہر میں جا بستا ہے اور آخر کار... لاش آبائی علاقے میں پلٹ جاتی ہے‘‘ چھٹا اور آخری شعر طاہر عظیم کا ہے’’ اس کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے... اور سیلاب آ گیا مجھ میں ‘‘۔عبد الحمید بھٹہ کے علاوہ دفتر خارجہ میں شہباز حسین کھوکھر، ڈاکٹر اسرار حسین اور عائشہ علی شعر و ادب پر بہت نظر رکھتے ہیں۔ عبدالحمید بھٹہ نے نوجوانوں کے اشعار بھیج کر کئی پرانے نوجوان یاد کروا دیئے ہیں۔ کیا زمانہ تھا کہ سرد موسم میں دھوپ چمکتی تھی، گورنمنٹ کالج لاہور میں بخاری آڈیٹوریم کے سامنے لان رنگوں سے بھرا رہتا تھا، مختلف شعبوں کے کئی لوگوں کا گزر ہوتا تھا، اس زمانے کے کئی نوجوان شعر و ادب سے رغبت رکھتے تھے، ان نوجوانوں میں خود عبدالحمید بھٹہ بھی شامل تھے۔ ایک طرف احسان الٰہی شاہد، اقرار الحسن، جواد ڈوگر، صدیق اعوان، اطہر اسماعیل، فرخ اعوان، علی محسن شاہ اور امجد سلہری نظر آتے۔ ایک ٹولی تازہ دم نوجوانوں کی ہوتی تھی، اس میں عرفی ہاشمی، رحمٰن اظہر، شہامت سلطان، فریحہ ادریس، احمد جمال اور خاور کمال ہوتے تھے۔ اسی لان کے بیچ میں سے شفقت امانت علی، حدیقہ کیانی، علی عمران شوکت، غلام علی وائیلنسٹ اور عمران جعفری کا گزر ہوتا تھا۔ ایک نوجوان قمر بشیر احمد تھا، خوبصورت شاعر تھا، اسی زمانے میں عشق اس کی جان لے گیا۔ نوجوانوں کے اشعار آپ پڑھ چکے ہیں، اب ایک نظم حمایت علی شاعر کی بھی پڑھ لیجیے، یہ نظم انہوں نے 1983ء میں کراچی آرٹس کونسل میں پڑھی تھی، اس سے پندرہ برس بعد میری حمایت علی شاعر کے ساتھ طویل نشست ہوئی تھی، اس نشست میں ان کی بیٹی زرفشاں بھی موجود تھیں، آج پتہ نہیں کیوں حمایت علی شاعر کی نظم یاد آ رہی ہے، آپ بھی پڑھیے اور سر دھنیے!
ابھی تو کچھ نہیں ہوا ، ابھی تو ابتدا ہے یہ
اور اب وہ وقت آئے گا کہ ساری قوم روئے گی
اور اپنے دل کے داغ اپنے آنسوں سے دھوئے گی
یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ
یہ لوٹ مار قتل و خوں، ڈکیتیاں، تباہیاں
بموں کی زد پہ ہنستی کھیلتی، حسین بستیاں
بہشت میں کہاں سے اک جہنم آ گیا ہے یہ
یہ کس کی آبرو لٹی ، یہ کس کا سینہ شق ہوا
یہ کون بھائی ہے کہ جس سے بھائی جاں بحق ہوا
یہ خودکشی کی مشق ہے، کہ جنگ خانہ ساز ہے؟
کہ غزنوی کمال فن بصورت ایاز ہے
جو ہم میں جاں بلب ہے وہ ضمیر پوچھتا ہے یہ
ہم اپنے ہاتھ ہی سے اپنا جسم کاٹتے بھی ہیں
پھر اپنی ہی زبان سے اپنا خون چاٹتے بھی ہیں
اگر ہے یہ جنون تو جنوں کی انتہا ہے یہ
سنا ہے اس فساد میں پڑوسیوں کا ہاتھ ہے
ہماری اپنی آستیں میں دشمنوں کا ہاتھ ہے
خبر نہیں فسانہ ہے کہ امر واقعہ ہے یہ
دیار پاک میں سدا عجیب سلسلہ رہا
زبان و دل کے درمیاں ہمیشہ فاصلہ رہا
سیاست وطن کا اک طویل سانحہ ہے یہ
خدا و دیں کے نام پر اگر یہ قوم ایک تھی
تمام امتوں کے درمیان سب سے نیک تھی
تو آج کیوں ہے بدترین، کیوں بہم جدا ہے یہ
وطن میں رہ رہے ہیں اور وطن سے واسطہ نہیں
ہمارے گرد و پیش، آج کوئی راستہ نہیں
زمین پر ہیں یوں قدم کہ زیرپا خلا ہے یہ
میں اک نوجواں کی گفتگو یہاں رقم کروں
مری تو آنکھ نم ہے، آپ کی بھی آنکھ نم کروں
وہ کہہ رہا تھا، آپ کے گناہ کی سزا ہے یہ
وہ قوم جو بکھر چکی، وہ کیا سمٹ سکے گی اب؟
یہ نفرتوں کی ہے خلیج، خاک پٹ سکے گی اب؟
کہ آپ ہی کے نقش پا کا اک سلسلہ ہے یہ
بزرگ اپنے فیصلوں پہ شرم سار ہوں نہ ہوں
حقیقتوں سے ان کے خواب، ہم کنار ہوں نہ ہوں
ہمیں جو آپ نے دیا وہ کاسئہ گدا ہے یہ
کہا گیا تھا یہ وطن بنا ہے، سب کے واسطے
تو ہم پہ آج کیوں ہیں بند زندگی کے راستے
یہ خانہ جنگیاں نہیں جہاد للبقا ہے یہ
میں سوچتا ہوں، ایسے نوجواں کو کیا جواب دوں؟
نظر سے گر چکے جو خواب ان کو کیسے آب دوں؟
میں کس طرح کہوں اسے، فنا کا راستہ ہے یہ
ادھر ہیں اقتدار کے نشے میں چور حکمران
ادھر عوام کا ہجوم مشتعل، شرر فشاں
اور انکے درمیاں وطن کا بخت نارسا ہے یہ
یہ فاصلے تھے جو ہمیں دونیم کر گئے
ہر اک خواب چھین کر ہمیں یتیم کر گئے
اور اب وطن ہے کیا؟ ہوا کی زد پہ اک دیا ہے یہ
دھڑک رہا ہے دل مرا وطن کا حال دیکھ کر
یہ انتشار دیکھ کر یہ اشتعال دیکھ کر
خدا بچائے، کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ
ابھی تو کچھ نہیں ہوا ، ابھی تو ابتدا ہے یہ