• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جنسی زیادتی ایک سنگین اور اہم مسئلہ بن چکی ہے، جسے معاشرتی، قانونی اور اخلاقی زاویوں سے دیکھا جانا ضروری ہے۔ یہ مضمون اس اہم موضوع پر روشنی ڈالے گا، موجودہ حقائق اور اعداد و شمار کی مدد سے اس مسئلے کی نوعیت اور اس کے نتائج کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات کی شرح خوفناک حد تک زیادہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور حکومتی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق، ہر سال ہزاروں افراد(بشمول خواتین ،بچے بچیاں) جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی 2022ءکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ کم از کم 11 افراد جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اصل واقعات کی صحیح تعداد کو ظاہر نہیں کرتے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سماجی و ثقافتی عوامل، کمزور قانونی نظام اور جنسی تعلیم کی کمی شامل ہیں۔پاکستانی معاشرہ روایتی اور پدرانہ نظام پر مبنی ہے، جس میں عورتوں کو مردوں سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ زیادتی کے واقعات کو بڑھاوا دیتی ہے۔ عورتوں کو اکثر اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی اور وہ خوف کے باعث رپورٹ نہیں کرتیں۔پاکستان میں قانونی نظام جنسی زیادتی کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پولیس کی عدم فعالیت، تحقیقات میں سستی، اور عدلیہ کی ناکامی کے باعث مجرم اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح 2فیصدسے بھی کم ہے۔جبکہ پاکستان میں جنسی تعلیم کی عدم موجودگی کے باعث بچوں اور نوجوانوں کو جنسی حقوق اوراپنے تحفظ کے بارے میںسرے سے کوئی تعلیم ہی نہیں دی جاتی، جس سے وہ آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔جنسی زیادتی کے متاثرین پر جسمانی، ذہنی اور جذباتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات لمبے عرصے تک رہ سکتے ہیں اور متاثرین کی زندگی کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ایسے واقعات کے نتیجے میں نفسیاتی وجنسی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ متاثرین کو فوری طبی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔ متاثرین میں ڈپریشن، انگزائٹی، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD)، اور خودکشی کے خیالات عام ہیں۔ ان اثرات کا علاج اکثر مشکل ہوتا ہے اور متاثرین کو طویل مدتی تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے قبیح واقعات کے خلاف معاشرتی ردعمل اب بھی ناکافی ہے۔ حالانکہ کچھ تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔حالیہ برسوں میں پاکستان میں جنسی زیادتی کے خلاف قانون سازی میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ 2020ءمیں، حکومت نے مجرموں کیلئے سخت سزائیں مقرر کرنیوالے قانون کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ 2021ءمیں خواتین اور بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات کی فوری سماعت کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔ تاہم، ان قوانین کے مؤثر نفاذ کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔جنسی زیادتی کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کیلئے مختلف این جی اوز اور تنظیمیں مہمات چلا رہی ہیں۔ ان مہمات کا مقصد عوام کو اس بابت آگاہ کرنا، متاثرین کو مدد فراہم کرنااور جنسی تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

اس باب میں پاکستان میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے۔ جس میں بچوں اور نوجوانوں کو ان کے حقوق، اپنی حفاظت اورتحفظ کے بارے میں ضروری آگاہی دی جائے۔ اس سے بچوں کے خلاف جرائم میں کسی حد تک کمی آئے گی جبکہ نوجوان ذہنوں پر بھی صحت مند اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح سماجی رویے میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔ خواتین کو مردوں کے برابر سمجھنا، ان کے حقوق کی حفاظت کرنا اور جنسی زیادتی کے متاثرین کو حمایت فراہم کرنا معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ، متاثرین کو الزام دینے کے بجائے مجرموں کو سزا دینا ضروری ہے۔دوسری جانب پاکستان میں جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ رضا مندی کے بغیر تعلق ایک سنگین مسئلہ ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ حقائق اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کتنی شدت سے موجود ہے۔ اس کے پیچھے موجود سماجی و ثقافتی عوامل، قانونی نظام کی کمزوریاں اور جنسی تعلیم کی کمی جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔جنسی زیادتی کے خلاف قانون سازی میں پیشرفت ہوئی ہے، لیکن ان قوانین کے مؤثر نفاذ کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ضرورت ہے جہاں ہر فرد، خاص طور پر خواتین اور بچے، محفوظ رہیں اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم جنسی زیادتی کے بڑھتے سنگین مسئلے کا مؤثر حل تلاش کر سکتے ہیں اور ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین