سینیٹر عبدالقادر نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا۔ بل میں مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 20 کی جائے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے ججز کی تعداد میں اضافے کا بل کمیٹی کو بھجوانے کا کہہ دیا۔
سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 53 ہزار سے زیادہ کیس زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں کیس آنے میں دو دو سال لگ جاتے ہیں، میرے خیال میں تو 16 ججز بڑھنے چاہئیں، سپریم کورٹ میں آئینی معاملات بہت آرہے ہیں، لارجر بینچ بن جاتے ہیں اور ججز آئینی معاملات دیکھتے ہیں۔
عبدالقادر نے کہا کہ اربوں روپے کے کیس سپریم کورٹ میں پھنسے ہیں، سپریم کورٹ کے پاس ٹائم نہیں کہ وہ ایسے کیس سنیں، ہمارا عدلیہ کا نظام نیچے سے ٹاپ پر ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ حقیقت کی باتیں ہیں، سزائے موت کے کیس زیر التوا ہیں، عمر قید کی سزا 25 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی، ایک شخص اپیل التوا ہونے کی وجہ سے 34 سال جیل میں گزار کر گیا، 2015 سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو فکر لگی ہے جیسے کسی چیز پر قبضہ ہو جانا ہے، بھئی کیوں ہوگا ایسا؟، پشاور ہائیکورٹ نے دس ججز کا اضافہ مانگا ہے، وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہ ججز انہیں دے رہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ قانون ایک دم سے آیا ہے کہ ججز کی تعداد بڑھا دی جائے، جوڈیشل مارشل لاء کی کوشش کی جا رہی ہے، اس لیے 7 ججز مانگے جارہے ہیں، ہم دو ججز کی تعداد بڑھانے کو تیار ہیں، اگر آپ کو ججز کی تعداد بڑھانی ہے تو پہلے ماتحت عدلیہ سے بڑھائیں۔
سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ جب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے تب سے یہ ججز کی تعداد بڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔