یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں موت اور مرنے سے پیچھا چھڑانے کیلئے دوڑتا رہتا تھا میں اپنی مرضی سے نہیں دوڑتا تھا، میرے کارڈیالوجسٹ نے مجھے تنبیہ کی تھی کہ میاں مٹھو، تم لگاتار دوڑتے رہو۔ جب تک دوڑتے رہو گے تب تک زندہ رہو گے۔ دوڑنا چھوڑ دو گے تو مر جاؤ گے۔ یہ دلفریب دنیا مجھے اچھی لگتی ہے۔ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا ۔ یہاں رہنے کیلئےمیں دوڑتا رہتا تھا۔ میں جس دور کی بات آپ کو سنارہا ہوں وہ دور بڑا ہی پُراسرار دور تھا۔ تب اسلام آباد کی آبادی ایک لاکھ سے کم لوگوں پر مشتمل تھی۔ مشورے دینے والے دریا دل ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے سے منع کرتے تھے۔ خونخوار جانوروں کا ذکر کرنے کے بعد شدو مد سے سور کا ذکر کرتے تھے ۔ کہتے تھے۔ ’’سورج غروب ہو جانے کے بعد سوروں کے ریوڑ گرین بیلٹ سے نکل آتے ہیں اور اسلام آباد پر راج کرتے ہیں‘‘۔ ہماری نفسیات بڑی نرالی، عجیب و غریب ہوتی ہے۔ ہم روزہ نماز کے پابند نہ سہی، دوست احباب کیساتھ ملکر ٹن ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ رشوت دینے رشوت لینے کو ہم برا نہیں سمجھتے۔ مختلف سرکاری پروجیکٹس کا صفایا کرنے میں ہم سے بڑا ہنرمند آپ کو کائنات میں کہیں نہیں ملے گا۔ عیش و عشرت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مگر عقیدے کے حوالہ سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم ایک لمحہ کیلئے قبول نہیں کرتے۔ خطاکار کو ہم خود پکڑتے ہیں، خود عدالت بن کر قصور وار کو سزا سناتے ہیں اور سزا پر عمل درآمد کرنے کیلئے پھانسی گھاٹ کا لیور خود چلاتے ہیں۔ بدبخت مجرم کو سرعام کوڑے مارتے ہوئے حتمی انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اس سے ہمارے عقیدے میں ہماری روحانی کیفیت کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایسی بیہودہ باتیں ہم ایک لمحہ کیلئے برداشت نہیں کرسکتے۔ یاد کرنے کی کوشش کیجئے پچھلے دنوں ایک گستاخ فیکٹری منیجر کی وہ گت بنائی تھی کہ دنیا بھر کے لوگوں کو ہم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ناقابل برداشت چیزوں میں ایک بدبخت سور کا نام بھی آتا ہے۔ ہم ویتنام ، کمبوڈیا ،کوریا ،چین میں کتے بلیوں اور چھچھوندر کا قورمہ تناول کرسکتے ہیں مگر سور کے گوشت کی ایک بوٹی ہم اپنی پلیٹ میں برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم بھوکے مرجائیں ،مگرسور کے گوشت کو آخری سانسوں تک ہاتھ نہیں لگا سکتے۔
ہم جانتے ہیں کہ سور باؤلے کتے کی طرح ہمیں کاٹ نہیں سکتا ۔شیر اور چیتوں کی طرح سور ہمیں چیر پھاڑ کر کھا نہیں سکتا ۔ خونخوار جانوروں کی طرح سور گوشت خور جانور نہیں ہے۔ مگر ہم سور سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں۔ ہم شیر اور چیتے سے نفرت نہیں کرتے ہم شیر اور چیتوں سے ڈرتے نہیں۔ ہم خونخوار جانور سے ڈرتے نہیں۔ بھیڑ، بکریوں، خرگوش، گائے، بیل اور گینڈے سے نہیں ڈرتے، ہاتھی سے نہیں ڈرتے۔ مگر جب عالموں اور دانشوروں نے ہمیں متنبہ کیاکہ سورج غروب ہونے کے بعد آپ اسلام آباد میں کسی قسم کی دوڑ دھوپ سے اجتناب کریں۔ سورج غروب ہونے کے بعد سور اسلام آباد کے راستوں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اور آپ کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ تب سے ہم اسلام آباد میں سورج غروب ہوجانے کے بعدخود بھی غروب ہوجاتے تھے۔ ڈر کے مارے ہم نے سورج غروب ہونے کے بعد اسلام آباد کی سڑکوں کی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ سورج غروب ہونے تک، میں مارگلہ روڈ پر دوڑتا رہتا تھا۔ میں اپنی مرضی سے نہیں دوڑتا تھا۔ مجھے کارڈیالوجسٹ نے کہا تھا کہ بچو! جب تک دوڑ تے رہو گے تب تک زندہ رہو گے ۔دوڑنا چھوڑدو گے ،مرجاؤ گے۔ یہ فریبی دنیا مجھے اچھی لگتی ہے ۔ دیکھی ہوئی دنیا چھوڑ کر میں کہیں نہیں جانا چاہتا۔ مگر اب میں دوڑ نہیں سکتا۔ میرے کارڈیالوجسٹ کو بتا دیجئے ۔ لگتا ہے یہ دلفریب دنیا چھوڑ جانے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ مارگلہ روڈ پر دوڑتے ہوئے مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں پر چڑھ جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں دوڑتے ہوئے مجھے ایک گیدڑ دکھائی دیا۔ وہ تھکا ہارا اور بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ ہانپتاکانپتاگیدڑ جب میرے قریب سے گزرا میں نے اس سے پوچھا۔’’مجھے تو تمہارے تعاقب میں کوئی بھیڑیا، ریچھ، چیتا دکھائی نہیں دیتا۔ تم کس سے اپنی قیمتی جان بچانے کیلئے دوڑ رہے ہو؟‘‘۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ دوڑتا رہا۔ میں نے نرم اور گرم لہجہ میں کہا ’’گیدڑ بھائی، میں آپ سے پوچھ رہا ہوں۔ آپ کے تعاقب میں آتے ہوئے مجھے بھیڑیئے دکھائی نہیں دیتے۔ تم کس سے جان بچانے کیلئے دوڑ رہے ہو۔‘‘ اس نے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا۔’’جان بچانے کیلئے بھاگنے والے گیدڑ نہیں ہوتے ،جیسے تم‘‘۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ میں نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا۔’’ ان سی آئی ڈی والوں نے ہم عام آدمیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے‘‘۔ گیدڑ نے کہا ’’میں سی آئی ڈی والوں سے جان بچانے کیلئے نہیں بھاگ رہا‘‘۔ میں نے تعجب سے پوچھا ’’ تو کیا بھتہ خوروں سے بھاگ رہے ہو‘‘۔ ’’میں ایک مرتبہ بہت بھوکا تھا ۔ بھوتار سائیں نے ایک ووٹ کے عوض مجھے بریانی کھلائی تھی‘‘۔ گیدڑ نے کہا ۔ جب تک بڑا بھوتار سائیں زندہ تھا، میں مفت بریانی کے عوض اسے ووٹ دیتا رہا۔ بڑے بھوتار سائیں جابسے ہیں جنت میں، اب چھوٹا بھوتار سائیں پچاس برس پہلے کھائی ہوئی مفت کی ایک بریانی کی پلیٹ کے عوض مجھ سے ووٹ مانگ رہا ہے۔ اس نے اپنے غنڈے میرے پیچھے لگا دیئے ہیں۔ ان بدمعاشوں سے بچنے کیلئے میں بھاگتا رہتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، گیدڑ نے پوچھا ’’تم کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘۔ میں نے کہا ’’میرے پاس امانت ہے ۔ وہ مجھے ہر حال میں لوٹانی ہے۔ مگرمیں امانت لوٹانا نہیں چاہتا ۔ اس لئے دوڑ رہا ہوں ‘‘۔