یہ26اور27ستمبر 1999کی درمیانی شب تھی۔ پی آئی اے کے طیارے نے بیجنگ کے لئے اڑان بھری تو اس وقت کے وزیر اطلاعات سیدمشاہد حسین نےاپنی نشست چھوڑ کر ہم سفر صحافیوں سے گپ شپ کا آغاز کی۔ پندرہ سال قبل بھی موضوع بحث میاں نوازشریف اورپرویز مشرف کے مابین چپقلش تھی اور نکتہ سنج باخبر وزیر اطلاعات کے مقابلے میں مجھ ایسے بیک بنچرصحافی کا خیال تھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے اور پرویز مشرف سے چھیڑ خانی جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہوگی مگر مشاہد صاحب نے عالمی حالات، فوج کی جمہوریت پسندانہ سوچ اورمیاں صاحب کی عوامی مقبولیت کے سبب شکوک و شبہات کو خارج از امکان قراردیا۔بعد میں جو ہوا وہ تاریخ ہے ، تلخ اور اذت ناک۔
مجھے موجودہ حکمرانوں سے پرخاش ہے نہ میں کبھی پرویز مشرف کی شخصیت کا مداح، پالیسیوں کاہم نوا اور انداز ِ حکمرانی سے متفق رہا۔ جب بہت سے کارندے پرویز مشرف کی لبرل سوچ، عملیت پسندی اور ترقی پسندانہ پالیسیوں کی ستائش میں مصروف تھےاور اپنے ’’ہم مشرب‘‘ قلمکاروں کو فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبوط کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے تاکہ وہ لبرل ایجنڈے کی تکمیل کرسکے تو میں،حامدمیر، عرفان صدیقی اور عطاالحق قاسمی کی قلمی کدو کاوش کی تحسین کرنے والوں میں شامل تھااور بساط بھر اسی قلمی جہاد میں حصہ ڈالتارہا۔ خواجہ سگ پرست کے سیکولر،لبرل اور مذہب بیزار ایجنڈے کے حامیوں کو جمہوریت کا دورہ پرویزی اقتدار کے خاتمے پر پڑا۔
میں پرویز مشرف کی آئین و حلف شکنی کو قومی جرم تصور کرتا ہوں اوراس کے جرائم کی فہرست میں کارگل آپریشن ، لال مسجد پرگولہ باری اوراکبر بگٹی کے قتل کو بھی سنگین اور ناقابل معافی سمجھتا ہوں مگر ان میں سے کوئی جرم پرویز مشرف نے اکیلے کیا نہ وہ تنہا سزا کا مستحق ہے۔
اقتدار کی گاجریں جن لوگوں نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کھائیں، انصاف کی لاٹھی بھی بلاتمیز و تفریق ان سب پر برسنی چاہئے اور قانون کےکٹہرے میں بھی ان سب کو ایک ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ یہی تقاضائے عدل اور منشائے انصاف ہے۔ مگر یہ طرفہ تماشہ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف 3نومبر کے اقدام پر خصوصی عدالت میں مقدمہ چل رہاہے۔ اس کا نام ای سی ایل میں ہے۔ وہ بیمارماں کی عیادت اوراپنے علاج کے لئے بیرون ملک نہیں جاسکتا جبکہ 12اکتوبر سے 3نومبر تک اس کے ہمنوا، ہم پیالہ و ہم نوالہ اور آئین شکنی میں مددگار سب کے سب احتساب سے بالاتر عیش کر رہے ہیں۔ جج، جرنیل، جرنلسٹ، عوامی نمائندے اور وزیر مشیر۔
قرآن مجیدمیں اہل ایمان کو باور کرایا گیا کہ کسی شخص کی دشمنی اور مخالفت تمہیں عدل و انصاف کے تقاضوںسے انحراف پر مائل نہ کرے مگرمیاں نوازشریف کی طرف سے انتقام نہ لینے کے دعوئوں اور پرویز مشرف کے ساتھ آئین و قانون کےمطابق سلوک کے دعوئوں کے باوجود ذاتی انتقام کا تاثر نمایاں ہے۔صرف حکمرانوں کی طرف سے ہی نہیں 3نومبر کےاقدام کا نشانہ بننے والے دیگر طبقات کی طرف سے بھی۔ اسی بنا پر سعودی عرب سے لے کر جی ایچ کیو تک ہرجگہ تشویش پائی جاتی ہے اور ان شکوک و شبہات کااظہار کیا جارہا ہے کہ ’’غداری کیس‘‘ کہیں جمہوری نظام کو کسی حادثےسے دوچار نہ کردے اور 1999 کی طرح فوجی مداخلت کے خلاف سارے دلائل دھرے کے دھرے رہ جائیں۔
مصر کا المیہ تازہ ہے فوجی مداخلت کو سب نے خوش آمدید کہا اور منتخب حکومت کی برطرفی کے علاوہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، قتل اور 529کارکنوں کو سزائے موت دینے کی کارروائی پر نام نہاد عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور جمہوریت پسندوں نے صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ الٹا فوجی حکومت کے لئے اقتصادی و معاشی امداد کے دروازے کھل گئے۔
آئین شکنی اور فوجی شب خون کو روکنے کا بہترین ماڈل ترکی نے اپنایا اور بارہ سال تک اقتدار میںرہنے کے بعد حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اپنی مقبولیت اور کامیابی کی شرح 39فیصد سے بڑھ کر 45فیصد تک لے جا کر طیب اردگان نے ثابت کیا کہ صبر و تحمل، رواداری ، خدمت خلق اور درست وقت کاانتخاب ہی جمہوری نظام کو سازگار ہیں اقتصادی و معاشی استحکام کے لئے اپنے عقیدے و نظریئے پراستقامت و ثابت قدمی ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور ہمسایہ ملک کے دبائو اور ریشہ دوانیوں کامقابلہ کیا جاسکتاہے اور کمال ازم، سیکولرازم، لبرل فاشزم کی علمبردار فوجی جنتا پر سول بالادستی قائم کرنا ممکن۔
پاکستان میں بھی فوجی شب خون اور آئین شکنی کو روکنے کا مجرب اور تیر بہدف نسخہ خدمت خلق ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوری رجحانات کا فروغ اورغربت و افلاس، مہنگائی بیروزگاری، کرپشن، اقربا پروری، جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ اور قدم قدم پر آئین و قانون کی پاسداری کا اہتمام تاکہ عام آدمی کو جمہوری حکومت فوجی آمریت سے بہتر لگے اور وہ عدالتی کٹہرے میں کھڑے فوجی آمر کی کسی تقریر کو درست اور حق بجانب قرار نہ دے سکیں اور عدالتیں بال حکومت کی کورٹ میں اور حکومت عدلیہ کی کورٹ میں پھینکنے پر مجبور نہ ہوں۔
جمہوریت اگر واقعی اس قدر مضبوط ہے کہ وہ آئین شکنی اور فوجی مداخلت کا ر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکائے اور عمرقید کی سزا سنانے میں آسانی محسوس کرتی ہےتو پھر 12اکتوبر اور 3نومبر کے اقدام میں شریک جمہوریت دشمنی میں پیش پیش اور 3نومبر کے سات رکنی عدالتی فیصلے کی تکذیب میں شامل کرداروں کو بھی کسی تفریق اور امتیاز کے بغیر شریک ِ جرم ٹھہرائے اور یہ تاثر دور کرے کہ فوج کے سابق سربراہ کو نشان عبرت بنا کر بنیادی طور پرفوج کے ادارے کو یہ پیغام دیاجارہا ہے کہ سول حکمران سیاہ کریں یا سفیدآرمی چیف کو ذ اتی ملازم سمجھیں یا کسی چارج شیٹ ، معقول وجہ کے بغیر فارغ کرنے کا حقدار کوئی چوں چرا نہ کرے ورنہ پرویز مشرف کے حشر سے دوچار ہونے کے لئے تیار رہے۔
عام خیال یہی ہے کہ پرویز مشرف کی گردن کے گرد پھندا تنگ ہو رہا ہے اور حکومت پر کسی قسم کا دبائو نہیں مگر جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے اپنے ساتھیوں کے دبائو پر میاں صاحب اس کیس کو الجھاتے چلے جارہے ہیں اور کل کلاں کو جب انہو ں نے اپنے دوستوں اوربہی خواہوں کی خواہش کا احترام کیا تو ان کی پوزیشن اور سیاسی ساکھ زیادہ خراب ہوگی۔ بروقت عفو و درگزر اور مصلحت اندیشی سے فراخدلی اور کشادہ ظرفی کا تاثر ابھرتا ہے تاخیر سے کوئی اقدام کمزوری، موقع پرستی اوردبائو پر جھکنے کی پالیسی کا مظہر قرار پاتا ہے۔ میاںصاحب عفو و درگزر کا ارادہ رکھتے ہیں اور اعلیٰ ظرفی کا یاخرابی ٔ بسیار کے بعد وہ کچھ کرنے کا جو بہرحال طے ہے؟
آنچہ کند دانا، ہم کند ناداں و لیک بعد از خرابی ٔ بسیار