• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ پاکستان بیسویں صدی کی اکثر تحاریک ِ آزادی کے برعکس ایک پُر امن سیاسی تحریک تھی جس میں اس وقت کی غیر ملکی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد یا قتل و غارت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ہاں یہ خون خرابہ اور مسلح جدوجہد 1857ء کی جنگِ آزادی کا حصّہ یقیناََ رہے۔ تاہم اس کی ناکامی کے بعد جب تاجِ برطانیہ نے 1858میں بر صغیر پاک وہند کو براہِ راست اپنی عملداری میں لے لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو حکومتی امور سے علیحدہ کردیا تو ہندوستان میں ایک سیاسی عمل کا آغاز ہو گیا جس کے دوران پہلے کانگریس کا وجود عمل میں آیا اور بعد میں مسلم لیگ کا ۔ بعد میں انہی دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی جد وجہد کے نتیجے میں انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی۔ تقسیمِ ہند کے دوران ہونے والا خون خرابہ اور دنگا فساد انگریز حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستانیوں یعنی ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوا۔ جس میں لاکھوں بیگناہ انسان دونوں طرف سے مارے گئے اور بربریّت کی وہ داستان مرتب کی گئی کہ انسانیت شرما کر رہ گئی ۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان سے زیادہ پاکستان کیلئے ضروری تھا کہ وہ خود کو قائم دائم رکھنے کیلئے خود کو سیاسی، معاشی ، قومی اور فوجی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائے کیونکہ ہندوستان کے برعکس یہ ایک نو زائیدہ ملک تھااور جغرافیائی لحاظ سے منفرد کہ اس کا دوسرا حِصّہ اس سے ایک ہزار میل کی دوری پر تھا جبکہ درمیان میں ہندوستانی علاقہ پڑتا تھا جس کے ساتھ اس کی مخاصمت تھی۔اور دشمن بھی وہ جو رقبے ، تعداد اوروسائل میں اس سے سات گنابڑا تھا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی اور سیاسی محّلِ وقوع جس قدر حسّاس نوعیت کا تھا۔ اسکی لیڈر شپ اس معیار کی نہیں تھی۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے علاوہ اکثر سیاستدانوں کی کھیپ اُن موقع پر ست جاگیرداروں اور سازشی بیورکریٹس پر مشتمل تھی جو پہلے انگریزوں کے کاسہ لیس تھے اور بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئےتھے۔ انہوں نے فوجی جرنیلوں کے ساتھ مل کر اقتدار پر قابض ہونے کیلئے ہندوستانی خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جسکی وجہ سے پاکستان ایک عوامی ویلفیئر ریاست بننے کی بجائے سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا۔ جس میں مسلح افواج اور جنگی سازو سامان کو ریاست کی اوّلین ضرورت قرار دیا گیااور باقی تمام قومی اور عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیاگیا۔ بھارت کے خطرے اور سیکورٹی ریاست کے تقاضوں کے پیشِ نظر جمہوریت کو نظر انداز کرکے آمر حکومتوں کا طویل دور شروع ہوگیا۔ جس نے پاکستان کے وفاق کو اتنا کمزور کردیا کہ باوجود ایک بظاہر مضبوط فوجی حکومت کے پاکستان صرف 23سال کے بعد ہی ٹوٹ گیا۔ جو دنیا کی تاریخ میں ایک تعجب خیزریکارڈ ہے کیونکہ لوگوں کے ذاتی تعلّقات بھی اس سے کئی سال زیادہ چلتے ہیں جبکہ ملکوں کی عمریں تو صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت سے زیادہ ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی اور غلط حکمتِ عملی کا عمل دخل ہے ۔ صحیح کہتے ہیں کہ دلیری اور حماقت میں ہلکی سی لکیر ہوتی ہے۔ جب ہم جانتے تھے کہ ہمارے ملک کے دونوں حِصّوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ ہے ، بھارت کے ساتھ ہماری دشمنی ہے تو ضرورت اس امر کی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ہر موضوع پر ہم آہنگی پائی جائے اور حقوق کے حوالے سے دونوں حصّے یک جان دو قالب ہوں، نیز ہندوستان جو ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہے اس کے ساتھ اختلافات کے باوجود دشمنی کو اس حد تک نہ جانے دیا جائے جہاں اسے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان زمینی فاصلے کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔ ہم نے نہ تو اپنے بنگالی بھائیوں کو ان کے حقوق دئیے اورنہ ہندوستان کے ساتھ دشمنی کو اُ ن حدوں میں رہنے دیا جو خود ہمارے وجود کیلئے ضروری تھیں نتیجہ یہ نکلا کہ ہم کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا کہ کامیابی جذباتی فیصلوں سے نہیں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ، سوچ بچار کے ساتھ ملتی ہے۔ ایک جنگ ملکوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہے لیکن ہم نے اپنی مختصر سی تاریخ میں دفاعِ وطن کے تحت کئی ہولناک جنگیں لڑی ہیںجنہوں نے ہمیں مضبوط نہیںکمزور کیا ہے۔ ہم کسی ایک دن کو یومِ دفاع ِ پاکستان منانے کے ساتھ یہ ضرور سوچیں کہ آج ہم اپنی سرحدوں پر اور سرحدوں کے اندر کن خطرات میں گھِرے ہیں۔ ہمارے چار ہمسایہ ممالک چین، بھارت، افغانستان اور ایران میں سے چین کے علاوہ ہمارے تعلّقات کسی سے تسلّی بخش نہیں۔ اندرون ِ ملک ہم علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دفاعِ وطن کیلئےجس مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اس کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ غربت، بڑھتی آبادی، جہالت اور بیروز گاری میں ہم اپنے خطّے میں سب سے آگے ہیں۔ جب تک ہم دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے آپ کو بدلتے نہیں اورہر ادارہ اپنے آئینی کردار میں واپس نہیں آتااورہم اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلّقات نہیں بناتے ۔ ہم دفاعِ پاکستان کے حقیقی تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔

تازہ ترین