سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس کے دوران اسلام آباد میں پر امن اجتماع اور امن و عامہ کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ بل کو فوری منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔
پرامن اجتماع و امن و عامہ بل پر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین فیصل سلیم نے رپورٹ پیش کی۔
اسلام آباد میں پر امن اجتماع اور امن و عامہ کا بل سینیٹر عرفان صدیقی نے منظوری کے لیے پیش کیا۔
کمیٹی نے بل کی 6- 1 سے منظوری دے دی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا اسلام آباد میں پر امن اجتماع کے بل کے خلاف احتجاج کے دوران بل منظو کر لیا گیا۔
چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اب جلسے کے لیے ہائیڈ پارک بنائیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بل کی منظوری کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، پی ٹی آئی کے جلسے کو روکنے یہ قانون بنایا جا رہا ہے، کیا اتنا ضروری پڑ گیا کہ بل فوری منظوری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، کیوں اتنا خوفزدہ ہیں، ایک جلسہ روکنے کے لیے اتنی کاوش ہو رہی ہے۔
اس پر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس بل کا کسی جلسے سے تعلق نہیں، شہر اس وقت پنجرہ بنا ہے، پورا شہر محاصرے میں ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے پی ٹی آئی جلسے کی اجازت اس وقت تک برقرار ہے، اسلام آباد آپ کا شہر ہے اس پر چڑھائی نہیں کرتے، پرامن جلسہ اپ کا حق ہے، آپ اپنی اتھارٹی کو مس یوز کر رہے ہیں۔
شبلی فراز نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے پرامن جلسے کیے، پی ٹی آئی نے کبھی شہر کو محصور نہیں کیا، ابھی ایس سی او کانفرنس ہو رہی ہے تب بھی آپ شہر کو محصور کریں گے، کرکٹ ٹیم آتی ہے تب بھی یہ شہر کو محصور کر دیتے ہیں، یہ بدنیتی ہے، یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ لیڈر کے جیل میں ہونے پر پارٹی جلسہ کرے، منی بل یا ججز کی تعداد میں اضافے کا بل نجی ممبر نہیں پیش کر سکتا، کیسے ایوان کو استعمال کرتے ہوئے ججز کی تعداد میں اضافے کا نجی بل پیش ہوا، ججز کی تعداد میں اضافے کا بل صرف حکومت پیش کر سکتی ہے، انہیں ججز کی تعداد میں اضافہ کے بل پر قومی اسمبلی میں شرمندگی کا سامنا ہوا، سینیٹ سے یہ نجی بل پیش کرنا درست نہیں تھا۔
سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس میں شہادت اعوان کی تقریر پر سیف ابڑو نے احتجاج کیا جس کے باعث ایوان شور شرابے سے گونج اٹھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے اظہارِ خیال کے دوران کہا کہ ہمیں ایوان میں کسی رکن کی مذمت نہیں کرنی چاہیے، معاملے پر متعلقہ فورم پر بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک واقعہ تھا، میں چیئر پر ہوں یہ فتویٰ نہیں دے سکتا کہ کس کی زیادتی تھی، کمیٹی میں جو ہوا اس کی تکرار یہاں شروع کریں گے تو ایوان میں بات بڑھ جائے گی۔
سیف اللّٰہ ابڑو نے ایوان میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی بنائیں اور اس معاملے کی تحقیقات کریں، میں بول رہا تھا جب ایک رکن نے کھڑے ہو کر مجھ سے بدتمیزی شروع کی، کافی لوگوں کو میری ذات سے تکلیف ہو گی، میں غلط ہوا تو میں معافی مانگوں گا، ورنہ وہ ارکان معافی مانگیں جنہوں نے بدتمیزی کی۔
شہادت اعوان نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ گفتگو میرے لیے کی گئی تھی، ایک شخص جس کو اپنے کردار کا پتہ ہے، اس آدمی نے مجھے کہا کہ میں تمہیں کرسی ماروں گا، اس کا کردار سارے صوبے کو پتہ ہے۔
شہادت اعوان کی تقریر پر سیف اللّٰہ ابڑو نے احتجاج جبکہ باقی سینیٹرز کی جانب سے ایوان میں شور شرابہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ دو روز قبل قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں بھی شہادت اعوان اور سیف اللّٰہ ابڑو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
شور شرابے پر سینیٹ کا اجلاس 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
شور شرابے کے دوران عرفان صدیقی نے کہا کہ دونوں اطراف سے ممبران ماحول کو ٹھنڈا کریں۔
سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر مسرور احسن نے خطاب کے دوران کہا کہ ایک معزز رکن کی کوئی دوسرا رکن بے عزتی نہیں کر سکتا، کمیٹی اجلاس میں بل پر بات چیت کے دوران ایک رکن نے دوسرے سے بدتمیزی کی وہ قابلِ مذمت ہے، اس رکن کی مذمت کرتا ہوں۔
اعظم نذیر تارڑ نے خطاب کے دوران کہا کہ ہمیں الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کرنی چاہیے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں، دو واقعات قومی اسمبلی میں ہوئے جس پر اسپیکر نے فوری ایکشن لیا، دونوں ممبران کو معطل کیا گیا، کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں، معاملہ چیئرمین سینیٹ کے سپرد کریں، چیئرمین سینیٹ تحقیقات کر کے ایکشن لیں۔
اعظم نزیر تاڑر نے وقفے کے بعد بتایا کہ چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں تفصیلی بات کی، اپوزیشن لیڈر اور ہم نے کوشش کی، دونوں ممبران کو گلے ملواتے ہیں، شہادت اعوان اور سیف اللّٰہ ابڑو ایک دوسرے سے گلے ملے، چیئرمین سینیٹ آپ کی مداخلت کا شکریہ۔
اس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اچھی دوستی لڑائی سے شروع ہوتی ہے، تمام الفاظ کو حذف کرتے ہیں۔
سینیٹ اجلاس کے دوران شبلی فراز نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس بحث کو ختم ہونا چاہیے، اس معاملے پر کمیٹی بننی چاہیے، دیکھنا ہو گا کہ کمیٹی کے ممبران کون ہوں گے، داخلہ کمیٹی کے ارکان تحقیقاتی کمیٹی کا حصہ نہ ہوں، ہم غیر پارلیمانی بات کی حمایت نہیں کرتے۔