چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہو گا، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے 30، 40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے، کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔
جسٹس منصور علی شاہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو نئے عدالتی سال کی مبارک ہو، 9 دن بعد مجھے بطور چیف جسٹس ایک سال ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نئے عدالتی سال کے موقع پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارروائی کیسی رہی، میرا سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا جو 4 سال سے نہیں ہوا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ لائیو ٹرانسمیشن کا مقصد عوام تک براہِ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا، پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے تھے یا یوٹیوبر بتاتے تھے، عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’اب مجھے خود پتہ نہیں ہوتا کہ ججز کیا فیصلہ کریں گے‘‘
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یقیناً ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے، دیکھا جائے کیا پہلے سے بہتری اور شفافیت آئی ہے یا نہیں، پہلے تو بینچ بنتے ہی علم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا ہوگا، اب مجھے خود پتہ نہیں ہوتا کہ دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کریں گے، کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا؟ اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہوگا اس کا مطلب ہے شفافیت آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے چیف جسٹس جمعرات کو کاز لسٹ کی منظوری دیتے تھے، پہلے کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کے پاس تھا، اب چیف جسٹس کا کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار ختم کر دیا گیا، اب کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، مقدمات کی سماعت مقرر کرنے کا اختیار رجسٹرار کا ہے، سپریم کورٹ میں ملازمین ہمارے نہیں ہوتے لیکن سپریم کورٹ کے لیے کام کرتے ہیں۔
’’سپریم کورٹ کو آفیشل خط لکھیں، ہم جواب دیں گے‘‘
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ملازمین کو جیسے بونس ملتا ہے ویسے ہی سپریم کورٹ سے وابستہ ملازمین کو بھی بونس دیا گیا، سپریم کورٹ میں کئی کیسز ہوتے ہیں، جتنا بولیں گے اتنا لوگ تنقید کریں گے، تنقید کرنے والے زیادہ اور تعریف کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں، سب لوگوں کے بنیادی حقوق برابر ہیں، سپریم کورٹ کو آفیشل خط لکھیں، ہم جواب دیں گے، ذرائع کی ضرورت نہیں، مفروضوں پر نہ چلیں، سپریم کورٹ نے انتخابات کا اہم فیصلہ کیا، 3 سماعتیں ہوئیں اور 12 روز کے اندر انتخابات پر فیصلہ کیا، سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدرِ مملکت دونوں کہہ رہے تھے کہ انتخابات کی تاریخ ان کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ نے کہا صدرِ مملکت کے پاس جا کر انتخابات کی تاریخ لائیں، سپریم کورٹ نے کہا انتخابات کی تاریخ میں ردوبدل نہیں آئے گا، رکاوٹیں پیدا کرنے والے رکاوٹیں لے آتے ہیں، سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افراد کو واپس بھیجا گیا ہے، ڈیپوٹیشن پر آنے والے 3 سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے، جن کی مدت مکمل ہوچکی تھی انہیں واپس بھیجا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی اور 78 نئی تعیناتیاں ہوئیں، عوام چاہتی ہے ان کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں اور ان کا پیسہ بچ سکے، اب کوئی بھی خط لکھ کر سپریم کورٹ سے کچھ پوچھے تو اسے جواب دے دیا جاتا ہے، معلومات تک رسائی پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیے گئے استثنیٰ کو خود ہٹایا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ تنقید اور تعریف کرنے والے بتا دیں کیا دنیا میں کوئی ایسا فیصلہ ہوا ہے، اگر ایسا فیصلہ نہیں ہوا تو سر اٹھا کر بتائیے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات ہے، بنیادی حقوق سب کے برابر ہوتے ہیں، صرف بے مقصد بات کا جواب نہیں دیا جائے گا، اب شفافیت ہے، گزشتہ سال اہم ترین فیصلوں میں انتخابات کا انعقاد بھی شامل تھا، اپنی ذات تک کبھی توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا، ایک بار توہین عدالت کا کیس کیا جس پر معافی مانگ لی گئی، دلائل دیں، تنقید کریں، گالم گلوچ کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، بچپن میں کہتے تھے جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، لیکن ادارے کی بات الگ ہو جاتی ہے۔
’’سپریم کورٹ نے بھی غلطیاں کی ہیں‘‘
ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے، سپریم کورٹ کا کام تشریح کرنا ہے، دوسروں سے شفافیت اور احتساب کریں اور اپنا نہ کریں تو قدر نہیں کی جاتی، سپریم کورٹ کے جج پر الزام لگایا، انہیں برطرف کیا گیا، کھلی عدالت میں کیس چلایا گیا، ہمیشہ دعاگو رہتا ہوں غلطیاں نہ ہوں، سپریم کورٹ نے بھی غلطیاں کی ہیں، اسلام آباد کے جج کو برطرف کیا گیا، بحال تو نہیں کر سکے لیکن انہیں ریٹائرڈ جج کا درجہ دیا گیا، آئین شکن کا مقدمہ پرویز مشرف پر چلایا گیا، سپریم کورٹ کے سامنے بیریئرز رکھے گئے تھے، ہم نے ہٹا دیے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے باہر چہل قدمی میں شہریوں کو رکاوٹ نہیں، مارگلہ پہاڑیوں کا کیس لوگوں کے مسائل سے منسلک تھا، ہر کیس اہمیت کا ہوتا ہے لیکن کچھ کیسز کی اہمیت وسیع ہوتی ہے، چیف جسٹس کے گھر میں مور رکھے گئے تھے، چیف جسٹس کے ساتھ موروں کا کیا تعلق، ان کے گھر سے موروں کو ہٹایا گیا اور کلرکہار ٹرانسفر کیا گیا، جنگل میں مور کا ناچنا سنا ہوگا تو جنگل میں ہی مور کو ناچنے دیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس سپریم کورٹ میں چلا جس میں سزائے موت برقرار رکھی گئی، ان کا کیس صدارتی ریفرنس کے ذریعے دوبارہ سنا گیا، سپریم کورٹ نےفیصلہ دیا ان کا کیس فیئر ٹرائل نہیں تھا، چیف جسٹس کو 3 ہزار سی سی لگژری گاڑی کی ضرورت نہیں تھی، لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف گاڑی بھی حکومت کو واپس بھیجی گئی، حکومت کو کہا ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدے۔
بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہنا سانحے سے کم نہیں: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کے لیے رجوع کرتے ہیں، سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمے داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی، فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں، بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا کسی سانحے سے کم نہیں ہوتا۔
انہوں نے سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے اسکوپ اور استعمال کے اثرات پر کافی سوالات اٹھے، سیاسی مقدمات میں توہین عدالت کا اختیار استعمال ہونے پر بحث نے طول پکڑا۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ بحث شروع ہوئی کہ جوڈیشل اتھارٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے درمیان توازن قائم ہونا چاہیے، نئے عدالتی سال پر عدلیہ کے اندرونی چیلنجز کو بھی دیکھنا ہو گا، نظام انصاف کی طاقت کا انحصار ججوں کے معیار پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا، میرٹ کی بنیاد پر ججوں کی بھرتی کیلئے سخت طریقہ کار اپنانا ہو گا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان عدالتی اختیار نہیں رکھتا، پارلیمانی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کے برعکس کوئی فیصلہ عدلیہ میں مداخلت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ ماضی میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی میں ہم آہنگی رہی، منیر بھٹی کیس کے فیصلے نے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات محدود کیے، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سمجھتے ہیں یہ فیصلہ ان کے اختیارات پر’انکروچمنٹ‘ ہے، منیر بھٹی فیصلے پر سپریم کورٹ کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سوموٹو اختیارات کے استعمال کا طریقۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طریقۂ کار بہتر بنایا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی ضرورت ہے۔