تنقید و تحقیق سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔خود پر تنقید تو میں خیر برداشت نہیں کر سکتا البتہ دوسروں پر تنقید میں اپنا ہی مزا ہے اور جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کا ایک پہلو مجھے بہت پسند ہے مثلاً یہ کہ میں تحقیق کرتا ہوں فلاح شخص بیس پچیس برسوں میں ’’یکایک‘‘ امیر کیسے ہو گیا اس طرح کے اور بہت سے مسائل ہیں جن پر غوروخوض کیلئے ہم دوست ہفتے میں ایک بار اکٹھے ہوتے ہیں اور ایسے ایسے لوگوں کی ’’پت‘‘ اتارتے ہیں جنہیں معاشرے نے بہت معزز سمجھا ہوا ہے اور انہیں ہر معاملے میں کلین چٹ دی ہوئی ہے۔ اس محفل میں ہر دوست ،اہل محلہ، اہل شہر بلکہ پاکستان بھر کے ممتاز افراد کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتا ہے اور ہم میں سے ہر کوئی یہ سن کر شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور بات بات پر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے حتیٰ کہ اپنے قریب ترین دوستوں،جن کے ساتھ عمر کا ایک طویل حصہ گزرا ہوتا ہے، کے حوالے سے ایسی ایسی گھٹیا باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ہم آج تک انہیں بھلے مانس ہی سمجھتے رہے۔ ان سے بھی زیادہ وہ باتیں رونگٹے کھڑے کرنے والی ہوتی ہیں جو علاقے کی شریف بیبیوں کے بارےمیں کی جاتی ہیں مگر چونکہ میرے دوستوں کا یہ حلقہ بہرحال وضعدار لوگوں پر مشتمل ہے چنانچہ ان کے حوالے سے گفتگو احتیاط سے کرتے ہیں ۔ گزشتہ میٹنگ میں ایک دوست نے بتایا کہ کل وہ گلی سے گزر رہا تھا کہ سامنے سے آنے والی ایک بہت خوبصورت لڑکی نے میرا راستہ روک لیا یہ مجھے خط بھی لکھا کرتی ہے اور کئی دفعہ باہر کہیں ملنے کا بھی کہہ چکی ہے اب وہ رستے میں ملی تو باہر کہیں چلنے پر اصرار کرتی رہی میں نے بہت مشکل سے اپنی جان چھڑائی سب نے اصرار کیا کہ وہ بتائے یہ لڑکی کون ہے مگر اس نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مزید کچھ بتائو ں،آخر ہم بھی دھی بہنوں والے ہیں البتہ صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ گلی میں سرخ اینٹوں سے بنا ہوا جو سب سے خوبصورت مکان ہے جہاں ایک بہت معزز سید گھرانہ رہتا ہے میں نے اسے وہیں سے آتے جاتے دیکھا ہے تم لوگ جتنا چاہے اصرار کرو میں اس کا اور اس کے معزز خاندان کا اتا پتا نہیں بتائوں گا ۔ اللہ ہم سب کا پردہ رکھے دراصل ہم دوستوں کا یہ حلقہ بہت دید لحاظ والا ہے چنانچہ جب اس محفل کے دوران کوئی اٹھ کر جاتا ہے تو پھر وہ اور اس کا گھرانہ موضوع گفتگو بن جاتا ہے اس کی موجودگی میں ایسی بدلحاظی کبھی کسی نے نہیں کی !
یہاں سے اب میں آپ کو ایک دوسری دنیا میں لے جائوں گا پہلے آپ کو جھٹکا لگے گا پھر آپ عادی ہو جائیں گے۔ بات یہ ہے کہ میرے سب محقق اور نقاد لوگ جانتے ہیں کہ ٹوٹی پھوٹی شاعری کر لیتا ہوںاوپر تلے سفر نامے لکھ لیتا ہوں بقول شخصے مزاح میرے گھر کی لونڈی ہے اورمیں اس کے ساتھ سلوک بھی لونڈیوں ایسا ہی کرتا ہوں ۔میں نے کبھی کسی تنقید ی اور تحقیقی کتاب پر مضمون نہیں لکھا ایسی کسی محفل میں اظہار خیال نہیں کیا مگر ہوا یوں کہ مجھے نیویارک کے وقار حیدر کی ایک ادا پر اتنا پیار آیا کہ میں یہ سطور لکھنے بیٹھ گیا۔ انہوں نے اپنے نانا اور اردوتنقید و تحقیق کے حوالے سے گرانقدر خدمات انجام دینے والے مولوی محمد باقر شمس کی دو گراں قدر کتابیں ’’دبستان لکھنؤ‘‘ اور ’’داستان لکھنؤ‘‘ کے عنوان سے ازسر نو شاید امریکہ ہی سے شائع کروائیں اور اس قدر دیدہ زیب کے نظر ان پر نہیں ٹکتی ۔وقار حیدر پر پیار اسلئے آیا کہ کسی بڑے سیاست دان ،کسی امیر کبیر، کسی حکمران کی اولاد ہونے پر تو فخر کیا جاتا ہے مگر اپنے علمی خانوادے کے حوالے سے عموماً بے خبری یا لاتعلقی ہی سے کام لیا جاتا ہے کوئی ان کے بارے میں بات کرے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ آباکو چھوڑیں قصیدے پڑھنا ہیں تو میرے پڑھیں!
بہرحال اس وقت یہ دونوں ضیغم اور عظیم کتابیں میرے سامنے دھری ہیں دونوں کتابیں جستہ جستہ دیکھی ہیں اور دکھ ہوا کہ میں اتنا عرصہ ان سے محروم کیوں رہا ،اگر اس علمی خزانے کے حوالے سے میری رائے پوچھیں تو اپنے وقت کے جید لکھنے والوں نے ان کتابوں کی تحسین کا بہت پہلے سے پورا حق ادا کیا ہے مجھے اپنے یار غار ڈاکٹر سلیم اختر کی اس رائے سے لفظ بہ لفظ اتفاق ہے جس کا اظہار انہوں نے مولانا کی زندگی میں کیا تھا اوریہ کہ ’’قحط الرجال کے اس زمانے میں مولانا محمد باقر شمس جیسی علمی شخصیات کا دم غنیمت ہے بطور محقق نقاد ،ماہر لسانیات اور شاعر ان کی کتابیں محتاج تعارف نہیں اور نہ ان کی ذات اور صفات ۔ان کتابوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ مولانا کے نام اور کام سے ناواقف (جیسے میں نالائق۔ قاسمی ) قاری بھی ان کے مندرجات کی مدد سے مولانا سے تقرب حاصل کر سکتا ہے جیسا کہ میں نے خود کو ان کے مطالعے سے مولانا کا ہم نشیں پایا۔‘‘ سلیم اختر ہی نہیں اس دور کی بہت سے نابغہ روزگار شخصیات نے مولانا کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔مجھے ذاتی طور پر ’’دبستان لکھنؤ‘‘ میں ’’مصحفی و انشا دور‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مولانا کی صاف گوئی جو ایک نقاد کا طرہ امتیاز ہوتا ہے جگہ جگہ دکھائی دی مثلاً وہ آغاز ہی ان جملوں سے کرتے ہیں کہ’’ اس دور میں زبان کچھ صاف ہوئی مگر مضمون کا بھونڈا پن، بیہودگی ،استبدال باقی رہا ‘‘۔اس کے بعد انہوں نے ان شعرا اور اس دور کے دوسرے شعرا کو خراج تحسین بھی پیش کیا ہے ۔ناسخ کو انہوں نے بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے آپ اسے میری جہالت کے سوا کوئی نام نہیں دے سکتے کہ مولانا نے اپنی دونوں کتابوں میں ان ادوار کے ان سینکڑوں شعرا کا احوال اور کلام بھی درج کیا ہے جن سے ہمارے محقق اور نقاد تو آگاہ ہیں مگر میرے لئے ان میں سے بہت سے نام نئے تھے مولانا نے اپنی ساری عمر لکھنے پڑھنے میں گزار دی ہم نے تو بس ضائع ہی کی۔