• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج تعیناتی سے متعلق انیسویں ترمیم 18 ویں ترمیم کے سر پر پستول رکھ کر منظور کروائی گئی، بلاول


چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ جج تعیناتی سے متعلق انیسویں ترمیم اٹھارھویں ترمیم کے سر پر پستول رکھ کر منظور کروائی گئی۔

بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال عدلیہ اپنے لیے خود ہی جج مقرر کر رہی ہے ، پیپلز پارٹی کافی دیر سے اس پر تنقید کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بار کونسل اور بانی پی ٹی آئی دور کے وزیرِ قانون بھی اس پر تنقید کر چکے ہیں، جج تعیناتی کے لیے اٹھارھویں ترمیم میں جو طریقۂ کار طے کیا گیا تھا وہ واپس لایا جاتا ہے تو یہ اچھی شروعات ہوگی، مگر فیصلہ یک طرفہ نہیں، اتفاق رائے سے کرنا چاہیے۔

پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ اگر سیاسی انتقام کی روایت ختم کرنی ہے تو میثاقِ جمہوریت اور نیب اصلاحات کی طرف جانا ہوگا، نئے میثاقِ جمہوریت کے لیے بھی تیار ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی گورنر راج کے حق میں نہیں ہے، مگر مجبوراً گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر چیئرمین پی پی پی نے خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ سے متعلق سوال پر کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں ایسے اقدامات کیے ہیں کہ گورنر راج طویل عرصے کیلئے نہیں لگ سکتا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ججز سے متعلق ترمیم جیسے معاملے پر اتفاق رائے کسی بھی پارلیمنٹ کےلیے چیلنج ہوتا ہے، ملک کی سیاسی صورتحال سے ہر پاکستانی مایوس ہے، کوئی شہری اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری سیاست ٹوٹ چکی ہے۔

پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ پارلیمان کو فعال کردار، قانون سازی، عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے، ہم جب یہاں پہنچتے ہیں یا عام آدمی ٹی وی پر دیکھتا ہے تو اسے نظر آرہا ہے کہ نظام نہیں چل رہا، شہید بھٹو کو ابھی انصاف ملا، شہید بھٹو کی تیسری نسل کو انتظار کرنا پڑا کہ ججز انصاف دیں گے، عام پاکستانی کی کیا امید ہو سکتی ہے ۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آزاد صحافت بھی ضروری اور ذمے دارصحافت بھی ضروری ہے،  منتخب نمائندے جلسوں میں میڈیا کو گالیاں دیں گے تو ان سے کیا توقع رکھیں، میڈیا کا بھی کوئی معیار ہوناچاہیے کہ ہر جھوٹ نہ چلے، اگر کوئی غلط خبر شائع ہوئی ہے اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔

پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ  بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں، خیبر پختونخوا کےحالات اس سے بھی برے ہیں، بہت خطرناک کہانیاں آرہی ہیں، وزیر اعلیٰ کے پی اس پر اپنے گاؤں میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اس صورتحال کا مقابلہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو مل کر کرنا ہے،  پہلی دفعہ نظر آرہا ہے کہ نہ صرف نیشنل سیکیورٹی کا سوال ہے بلکہ عوام کے لیے امن قائم کرنا خطرے میں ہے،  پہلی دفعہ ہے کہ اس ایشو پر بھی سیاست کھیلی جار ہی ہے، اتفاق رائے نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر پی پی کی حکومت نے 90 فیصد درآمد کیا،  ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں نیب کے لیے ایک موقف، حکومت میں آتے ہیں دوسرا موقف ہوتا ہے،  اگر کرپشن کا مقابلہ کرنا ہے تو نیب ریفارمز کے نظام کو فالو کرنا پڑے گا، عدلیہ کے لیے بھی میثاق جمہوریت میں تجاویز دیں وہ پی پی کے منشور کا حصہ ہے،  عدلیہ کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں تاکہ کیسز کا بوجھ ختم ہو، عام آدمی کو فوری انصاف ملے۔

قومی خبریں سے مزید