• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کی ایک نئی راہ تلاش کی گئی تھی جسے’’امن کی آشا‘‘کا خوبصورت نام دیا گیا تھا، کوشش یہ تھی کہ پاک بھارت کے بیچ بنائی گئی دیوار اتنی نیچی کر دی جائے،کہ کوئی بچہ بھی اسے پار کر لے، یہ کام اس سے پہلے بھی کئی بار سر انجام دینے کی کوشش کی گئی تھی صدر مملکت آصف علی زرداری سے لے کر دانشور و سابق چیئرمین پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز فخر زمان تک ہنوز دونوں ملکوں کی تلخی کو کم کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ وہی کوہ گراں ہے جسکی بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی تقریروں اور بیانات میں کئی بار نشاندہی کی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد برصغیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کیلئے اچھے دوستوں اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا ممکن ہو جائے گا، انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات دیکھنے کے خواہشمند ہیں جیسے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ’’ امن کی آشا‘‘بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

برصغیر کی تقسیم کی تاریخ اور جغرافیہ پر تبادلہ خیال بار بار ہو چکا ہے تبادلہ خیال کرنے سے ایک دوسرے کے خلاف تلخی بڑھتی ہے اور میرے حساب سے پہلے سے موجود تلخی میں اضافہ کسی طور بھی جائز نہیں۔ گزشتہ 77برس سے پاکستان اور بھارت مسلسل لڑتے بھڑتے آئے ہیں جس کی بنیادی وجہ کشمیر یا مسئلہ کشمیر بتائی جاتی ہے۔ کشمیر کے عوام کو امن اور خوشحالی کی ضرورت ہے اس لیے دونوں ملکوں کو یہ محسوس کرنا چاہئے کہ کشمیر کے مسئلہ کی وجہ سے اس پورے خطے میں زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے، اس کشیدگی کے ہوتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مابین زندگی کے کسی بھی شعبے میں حقیقی تعاون محال ہو کر رہ گیا ہے۔دونوں ملکوں میں دولت،وقت اور توانائی ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈےپر ضائع کی جا رہی ہے اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ دونوں ملکوں میں کچھ ایسے عناصر اور ادارے پیدا ہو گئے ہیں جن کا روزگار مسئلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھنے سے ہی جاری رہ سکتا ہے مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خواہش کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا اور پاکستان و بھارت امن و مفاہمت کی طرف پیش قدمی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے یا کر دیے جائیں گے کہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا مفاد اسی میں ہے کہ اس پورے خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ لگ بھگ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے اس خطے میں سکون ،امن اورسلامتی کا مطلب ہے دنیا بھر میں امن و چین۔ اور اس امن و چین کو یقینی بنانے کیلئے پاک و ہند کے درمیان مفاہمت شرط اولین ہے۔

پاکستان اوربھارت برسوں سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے بجائے بات چیت اور مکالمے کی ایک ایسی ڈگر تلاش کریں جو از خود جاری رہ سکے کہ پاک و ہند کی ساری تاریخ ناکام مذاکرات سے عبارت ہے۔ دوستی کا سوال تو ایک طرف ٹھہرا سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا ہم باہمی دشمنی کے متحمل بھی ہو سکتے ہیں؟ میرے حساب سے اس وقت سب سے اہم مسائل دہشت گردی،بلوچستان اور کشمیر ہیں۔کشمیر جیسے اہم مسئلہ پر عوام الناس میں کام کرنے کی ضرورت ہے اس سے رائے عامہ میں تبدیلی کے مواقع پیدا ہونگے دونوں ملکوں میں شکوک و شہبات اس قدر پھیلا دیے گئے ہیں کہ گزشتہ 77 برسوں سے ہم محض ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہی کرتے آئے ہیں جبکہ پاک و ہند دوستی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔

میری رائے میں’’امن کی آشا‘‘ بھی امن و دوستی کی جانب ایک اہم قدم ہے، ہر وہ دن جب تصادم کے خدشے میں شدت پیدا نہ ہو بہتر قدم ہے۔اگر دوستی کے یہ قدم بڑھتے گئے تو ایک دن ضرور اپنی منزل کو پا لیں گے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنے آپ کو’’عوامی حکومتیں‘‘کہتی ہیں یا سمجھتی ہیں تو یہ’’امن کی آشا‘‘کا عوامی رابطہ کیوں ٹوٹ گیا ہے؟مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب پاک وہند کے درمیان اگر بہت اچھے نہیں تو اچھے تعلقات ضرور تھے اب ایسی کیا افتادآپڑی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو’’دشمن‘‘ تصور کر بیٹھے ہیں؟ میں پاکستان کے ارباب اختیار سے درخواست کرونگا کہ وہ اپنی ماہوار جنگی دھمکیوں کے بجائے بھارت سے دوستی کے لیے ہاتھ بڑھائیں، آخر کو بھارت ہمسایہ ہے۔

میرے حساب سے اگر جنرل پرویز مشرف کا تیار کردہ کارگل کا ’’گڑھا‘‘ درمیان میں نہ آجاتا تو نواز شریف بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوتے۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد کسی حکمران میں اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے کہ وہ برصغیر میں بڑھتی ہوئی خوف کی آندھی کا تدارک کرسکے؟ یقیناً ہے،آصف علی زرداری کی کوششیں رنگ لا سکتی ہیں بشرطیکہ ٹوٹے ہوئے اس سلسلے کو وہیں سے جوڑا جائے جسے ’’اعلان لاہور‘‘ کہتے ہیں۔ کسی عارف نے کیا پرمغز بات کہی ہے۔’’جن حقیقتوں کا سامنا جرات اور صاف گوئی کے ساتھ نہ کیا جائے وہ پلٹ کر ہماری ہی پشت پر وار کر بیٹھتی ہیں‘‘۔

تازہ ترین