• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ربیع الاول کے مبارک مہینے میں ایک دلکش روحانی اور نورانی خوشبو کی لہر ہر سمت فضا میں پھیلتی اور رگ ِجاں میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔اسی سرشاری کی کیفیت میں قافلے دل کے چلے میری توجہ میں یوںبس گئی کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہا، بھلا محبت کی کہانی ایک بار پڑھنے سے کب تفہیم کے دائرے میں سماتی ہے، اس خاص کہانی میں کہیں اپنی جگہ بنانے کے لیے،محسوسات کو اس مقام پر لے جانا پڑا جہاں کہیں کھڑے ہو کر وہ منظر دیکھا جا سکے ، اسے میری ظاہری نظروں نے معلومات کے خزانے سے دماغ کی الماری بھرنے کیلئے ذوق و شوق سے پڑھا، وجدان نے چاہت کی تسبیح میں پروئےلفظوں کا ورد کیا۔صفحات کو چھونے والی انگلیوں نے تعریف سے پھوٹنے والا لمس میرے دل میں اتارا تو میں بھی اس منظر کا حصہ بنتی گئی ، میرا وجود خیر کی کرنوں کی پناہ میں چلا گیا،مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ساری واردات میرے بھی دل پر اتر رہی ہو،وہ تجربہ مجھے بھی مالا مال کر رہا ہو اور یقیناً جو کوئی بھی یہ محبت نامہ پڑھے گا اسی طرح کی کیفیت محسوس کرے گا ۔یہ الطاف حسن قریشی کا کمال ہے ، تقریباً ایک صدی کے تجربات اور واقعات جیب میں رکھ کر گھومنے والے الطاف قریشی کی ہستی ایک رازوں بھری کتاب کی طرح ہے اس کتاب کو محبت سے اور توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے، اس میں ذات کی اصلاح کے بہت سے پہلو ہیں وطن سے وفاداری کی داستانیں ہیں غلطیوں کی نشاندہی اور توبہ کے مرحلے کے بعد کامیابی کے سنہرے اصول ہیں،الطاف قریشی کو یہ ساری وجدانی ،شعوری اور روحانی کیفیتیں ذات و کائنات کی دریافت کے بہت سارے چلے کاٹنے کے بعد عطا ہوئی ہیں، یقین کہ مصلے پر مسلسل سجدوں کی دستک سے نور کا جو دروازہ کھلا ہے اس کی چکا چوند نے ان کے تن من کو ہی سیراب اور شرابور نہیں کیا بلکہ اس تجربے میں انہوں نے قاری کو بھی شامل کیا ہے ، ایسی فضا باندھی ہے، ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ پڑھنے والا دیکھنے اور محسوس کرنے لگتا ہے۔’ قافلے دل کے چلے‘ الطاف حسن قریشی کے دل کی گہرائیوں سے پھوٹتی عقیدتوں کی کہانی ہے ،یہ روح کی والہانہ سرشاری سے ادا ہونے والی عبادتوں کا احوال ہے،عقل و دانش کی معراج سے دیکھنے سمجھنے اور جاننے کا عمل ہے جو مصنف کو عجب روحانی طاقت اور یقین کی دولت عطا کرتا ہے۔جس کے دل میں محبوب خدا کی محبت کا چراغ جل رہا ہو وہ بھی بادشاہ ہوتا ہے اور ایسے بادشاہ کو بادشاہوں کی طرف سے بلاوا بھیجا جاتا ہے۔یوں تو الطاف حسن قریشی نے کئی حج اور عمرے ادا کیے لیکن شاہ فیصل کی طرف سے حج کی دعوت اور ان کے انٹرویو کے حوالے سے ایک مہینے تک سعودی عرب میں مقیم رہنے کے دوران ان پر مکہ مدینہ کی بہت ساری وجدانی کیفیات وا ہوئیں۔ انہیں حبیب خدا ﷺ کے روضے کا اندر سے دیدار کرنے کا موقع ملا ، ایسی کیفیات بیان سے باہر ہوتی ہیں کیونکہ جو کچھ ان کے نتیجے میں دل اور روح پر گزرتی ہے وہ کبھی کوئی بھی انسان لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتا صرف اسکا کچھ حصہ ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھے الطاف قریشی کا ہر مشاہدہ روحانی تجربہ بنتا ہوا دکھائی دیا کیونکہ انہوں نے ہر منظر کو صرف دیکھا نہیں محسوس بھی کیا اور روح میں بھی اتارا،وہ سارے مقامات جن کا تذکرہ ہم شعور کی آنکھ کھولتے ہی اپنے ارد گرد ہوتا سنتے ہیں،انہیں دیکھنے کا مرحلہ دل و جان پرکیسی سرشاری طاری کرتا ہے ،پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دل کے قافلے کے مختلف پڑاؤ کے موقع پر پیش آنے والے واقعات اس کتاب میں سما کر تاریخ کا حصہ بن چکے، ان کوجاننے اور دل میں اتارنے کیلئے آپ کو یہ کتاب وجدان کی آنکھ سےپڑھنی پڑے گی تبھی آپ ان تمام روحانی اور وجدانی کیفیات سے لطف اندوز ہو سکیں گے جنہیں بیان کرتے ہوئے الطاف حسن قریشی نے آپ کےدل اور روح پر دستک کا خاص اہتمام کیا ہے۔پاکستان سے محبت بھی ایمان کی طرح مصنف کی سرشت میں سمائی ہوئی ہے اسلئے وہ ہر سیاسی سماجی روحانی اور دینی پلیٹ فارم اور مقام پر پاکستان کے وقار اور بہتری کے نسخے اور خواب ہمراہ لے کر جاتے ہیں ، موازنہ کر کے سمجھاتے ہیں،بحیثیت قوم اپنی غلطیاں ماننے پہچاننے اور ان کی تصحیح کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اس کتاب میں بھی کئی اصلاحات اور تجاویز ہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی وسعت کے مثبت اشارے ہیں۔قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی طرف سے شائع ہونے والی یہ کتاب آپ کی ذاتی لائبریری میں موجود ہونی چاہئے ایسی کتابیں روح کو اجالتی ہیں اور نظر کے آئینے کو وسیع کرتی ہیں۔

تازہ ترین