امریکا میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی شروع ہوچُکی ہے، جس کا آغاز سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ نائب صدر، کمیلا ہیرس کے درمیان ایک مباحثے سے ہوا، جس کا اہتمام ایک ٹی وی چینل نے کیا تھا اور اسے براہِ راست نشر کیا گیا۔ٹرمپ، ری پبلکن پارٹی کے صدارتی اُمیدوار ہیں، جب کہ بھارتی نژاد امریکی شہری، کمیلا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی اُمیدوار ہیں۔عموماً صدارتی اُمیدواروں کے درمیان اِس طرح کی تین ڈیبیٹس ہوتی ہیں، جن کا اہتمام میڈیا ہاؤسز کرتے ہیں۔
یہ مباحثے عوام کی خصوصی دل چسپی کا باعث ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور اُن کے اُمیدواروں کی قومی و عالمی معاملات پر پالیسیز سے آگاہی ملتی ہے۔ اِن مباحثوں میں نجی معاملات بھی ڈسکس ہوتے ہیں، تو باڈی لینگویج کے ذریعے ایک دوسرے کو زچ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، تاہم یہ کوئی پہلوانی کا مقابلہ نہیں ہوتا، جس میں ایک دوسرے کو چِت کرنا ہو۔
یہ اِس انتخابی مہم کی پہلی صدارتی ڈیبیٹ نہیں تھی۔ اِس سے قبل صدر جوبائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ایک مباحثہ ہوچُکا ہے، جس میں بائیڈن کی کارکردگی، جوابات اور شخصی امیج اوسط سے کم بلکہ خاصا خراب رہا، جس سے اُنھیں اور پارٹی کو نقصان پہنچا۔ عوام تک یہ تاثر گیا کہ ڈیموکریٹس، الیکشن سے قبل ہی ہار چُکے ہیں۔ جوبائیڈن کسی موضوع پر پارٹی مؤقف واضح کرسکے اور نہ ہی ٹرمپ کے حملوں کا جواب دے پائے۔
یوں لگا کہ وہ پیرانہ سالی کے سبب اِس قابل بھی نہیں کہ کسی اسٹیج پر نوّے منٹ تک کھڑے رہ سکیں۔ اُن کی زبان اور پاؤں، دونوں لڑکھڑائے۔ اس پرفارمینس کو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے تباہ کُن قرار دیا گیا اور خود پارٹی میں سے مطالبہ سامنے آیا کہ بائیڈن صدارتی مقابلے سے الگ ہوجائیں اور ایسا ہی ہوا۔جوبائیڈن اپنی تمام تر ہٹ دھرمی کے باوجود، اُمیدواری سے دست بردار ہونے پر مجبور ہوئے، لیکن جاتے جاتے اپنی نائب صدر کمیلا ہیرس کو اپنی جگہ امیدوار نام زد کرگئے، جنہیں بعدازاں پارٹی کنونشن میں باقاعدہ صدارتی اُمیدوار منتخب کیا گیا۔
مباحثے میں پہلی شکست کا بوجھ ڈیموکریٹس کے لیے نہ صرف بہت بھاری تھا بلکہ فال آئوٹ کے خاتمے یا کم کرنے کے لیے اُنہیں بہت محنت کرنی پڑ رہی ہے اور اِسی لیے کمیلا ہیرس کے امیج کو امریکا کی جمہوریت کی اُمید کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔اُنہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ہلیری کلنٹن جیسی مضبوط اُمیدوار، اپنی تمام تر مقبولیت اور سیاسی وراثت کے باوجود ٹرمپ سے شکست کھا گئی تھیں، مگر امریکا میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا، جس کی میڈیا ٹرمپ اقتدار کی صُورت میں پیش گوئیاں کر رہا تھا، بلکہ ٹرمپ اِس حد تک مقبول اور کام یاب رہے کہ اُن کے حامی آج تک اُن کے زمانے کی کام یابیاں گنواتے نہیں تھکتے۔
پھر یہ کہ حالیہ گولی لگنے کے واقعے نے تو اُن کی بہادری بھی مثالی بنادی ہے۔ کمیلا ہیرس بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح بائیڈن دَور کی غلطیاں عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں، مگر کیا وہ اِس کوشش میں کام یاب ہوں گی، یہ ایک اہم سوال ہے۔ صدارتی انتخاب میں دو ماہ سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔ٹرمپ کو آغاز ہی سے واضح برتری حاصل رہی ہے، تاہم اب ڈیموکریٹک میڈیا کا کہنا ہے کہ ریس قریب، قریب ہے۔ بہرحال، نومبر کے پہلے منگل کو پتا چل جائے گا کہ اِس دوڑ میں کون فاتح رہتا ہے۔
یوں تو امریکا ہر گھر کا موضوع ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ امریکی جمہوریت کئی تہوں میں لپٹی ہوئی ہے اور یہ کہ وہاں طاقت کا محور کون کون ہے اور اُنھیں احتساب کے دائرے میں لانے کا طریقۂ کار کیا ہے۔وہاں صدر، اختیارِ کُل کا مالک ہے۔ وہ اپنے فیصلے نہ صرف صادر کرتا ہے، بلکہ منوانے کی بھی پوری قوّت رکھتا ہے۔
وہ’’ ایمرجینسی پاورز‘‘ کے تحت ایوان کو ویٹو بھی کرسکتا ہے، جس کا مظاہرہ دنیا بارہا دیکھ چُکی ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ ایک امریکی صدر ہی نے کیا تھا۔ دنیا کچھ کہتی رہے، اکثر و بیش تر وہی ہوتا ہے، جو پالیسی امریکی صدر وضع کرتا ہے۔پاکستان میں عوام اور سیاست دانوں کو اس کا بخوبی تجربہ ہے، جنہوں نے امریکی دوستی اور مخالفت دونوں دیکھی ہوئی ہیں۔
جغرافیائی طور پر امریکا، برّاعظم شمالی امریکا کا سب سے بڑا مُلک ہے اور اس کی آبادی لگ بھگ تیس کروڑ ہے۔ امریکا ایک زمانے میں برطانیہ کی نوآبادی تھا، پھر اس نے 1776ء میں باقاعدہ جنگ لڑ کر برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اسے’’امریکی انقلاب‘‘ یا’’ وار آف انڈی پینڈینس‘‘ کہا جاتا ہے۔ہمارا امریکا سے پہلا واسطہ اُس کی آزادی کے168 سال بعد پڑا، جب وہ دو عالمی جنگوں کا فاتح، ایٹم بم کا مالک، دنیا کا سب سے امیر مُلک اور سُپر پاور تھا۔ ہم اس سے6000میل کے فاصلے پر ہیں۔ہمارے مُلک میں اہلِ دانش اور تجزیہ کار باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہیں، مگر دنیا میں 80 سال سے سُپر پاور رہنے والی طاقت کی، جس کے ہم قریبی اقتصادی اور فوجی حلیف رہے، تاریخ سے بالکل نابلد ہیں۔
بہرحال، امریکی جنگِ آزادی کے روحِ رواں، جارج واشنگٹن تھے، جو ایک معمولی کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔اُنہی کے نام پر امریکا کے دارالحکومت، واشنگٹن کا نام رکھا گیا۔ وہی یہ اصول وضع کرگئے تھے کہ کوئی شخص دو بار سے زیادہ امریکا کا صدر نہیں بن سکتا۔ اُس وقت سے امریکی نظامِ حکومت، جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہے۔ شروع میں اس کی 13ریاستیں تھیں، جو اب بڑھ کر50 ہوچُکی ہیں۔ اس کے پرچم پر ستاروں کی تعداد ریاستوں کی نشان دہی کرتی ہے۔
واشنگٹن، نیویارک، شکاگو، کیلی فورنیا اور ٹیکساس جیسے عالمی شہرت کے حامل شہر، اِسی مُلک کا حصّہ ہیں۔یہ دنیا کا طاقت وَر ترین مُلک ہے اور تمام سمندروں میں اس کے جنگی بحری بیڑے گھومتے رہتے ہیں۔یہ ٹیکنالوجی کا لیڈر ہے۔سوویت یونین دَور تک دو عالمی سُپر پاورز تھیں، لیکن گزشتہ تیس سال سے یہ دنیا کی واحد سُپر پاور ہے۔دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا معاملہ ہو، جس میں کسی نہ کسی طور امریکا کا نام نہ آتا ہو۔خاص طور پر جتنی سازشی تھیوریز اِس مُلک سے متعلق مشہور ہیں،اُن کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں کرسکتا۔ اور شاید ہر زبان پر اس کا نام رہنے کی وجہ بھی یہی تھیوریز ہیں۔
اِسے’’ لینڈ آف اپر چیونٹیز‘‘ کہا جاتا ہے، اِسی لیے جن ممالک میں اِس کے خلاف جلسے، جلوس ہو رہے ہوتے ہیں، وہیں کے لوگ ویزوں کے لیے اِس کے سفارت خانوں کے باہر قطاریں بنا کر صبح سے شام تک کھڑے رہتے ہیں۔ ’’فرسٹ ورلڈ‘‘ کا تصوّر امریکا ہی نے پیش کیا، جس کا مطلب ہے، بلند معیارِ زندگی، جو سرمائے اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔امریکا کی حُکم رانی صدر کے گرد گھومتی ہے، لیکن اُس کا مواخذہ ہوسکتا ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں دو صدور، بل کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے سے گزرے اور بے قصور پائے گئے۔
امریکی سینیٹ، ایوان بالا کہلاتی ہے، جو ریاستوں کی نمائندگی کرتی ہے، جب کہ ایوانِ زیریں، کانگریس ہے۔یہ بہت پاور فُل ہاؤسز ہیں اور اِن کے منظور کردہ بِلز امریکا کی اندرونی سیاست پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہاں ووٹنگ کا سسٹم بائی پارٹیزن ہے، یعنی ارکان کسی پارٹی پابندی کے بغیر کسی بھی بِل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
امریکا، برطانیہ، یورپ، کینیڈا آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت، جاپان اور جنوبی ایشیا کے بیش تر ممالک میں ایک خاص قسم کا معاشی نظام رائج ہے، جسے’’کیپٹلسٹک اکانومی‘‘ کہا جاتا ہے۔ آج کی دنیا اِسی نظام پر چل رہی ہے، یہاں تک کہ اب اِس نظام کے مخالفین ،روس اور چین بھی اِسی کی پیروی پر مجبور ہیں۔امریکی کرنسی، ڈالر دنیا کی سب سے مضبوط کرنسی ہے اور اسی سے عالمی زرِ مبادلہ کا نظام چلتا ہے۔امریکا چاند پر پہنچنے والا پہلا مُلک ہے۔
یہ پہلی نیوکلیئر پاور ہے، جب کہ انٹرنیٹ، سیٹلائٹ، کاریں، آرٹی فیشل انٹیلی جنس، ٹیلی ویژن جیسی انقلابی ٹیکنالوجی کے ٹُولز امریکا ہی میں ایجاد ہوئے۔دونوں عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی فیصلہ کُن فتح میں امریکا کا بنیادی کردار رہا۔ اِس اجمالی جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اِس کے صدارتی ایوان، یعنی وائٹ ہاؤس کا جو مکین ٹھہرتا ہے، وہ کیا کچھ کرسکتا ہے۔اس کا اندازہ امریکی عوام کو تو ہے ہی، لیکن دنیا بھی بخوبی جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی مخالف بڑی طاقتیں بھی اس صدارتی مقابلے کے ایک ایک لمحے کو فالو کرتی ہیں۔
امریکی عوام کے لیے گزشتہ پندرہ سال سے سب سے اہم موضوع معاشی صُورتِ حال ہی ہے۔ٹرمپ ہوں یا کمیلا، اُنہیں عوام کو یقین دِلانا ہوگا کہ وہ امریکی معیشت کو کبھی اُس مشکل صُورتِ حال سے دوچار نہیں ہونے دیں گے، جو اُنہیں اوباما دَور کے بعد دیکھنی پڑی۔ عوام کورونا کی تباہ کاریوں کو بھی نہیں بھولے۔ امریکی عوام نہ صرف سب کچھ یاد رکھتے ہیں، بلکہ اگر کسی پارٹی یا صدر سے غلطی ہوتی ہے، تو اُسے معاف بھی نہیں کرتے۔ٹرمپ نے کورونا کی تباہ کاری کی سزا بھگتی، حالاں کہ ویکسین اُن ہی کے دَور کی ایجاد ہے۔
امریکا میں شخصیت پرستی سے زیادہ، فلاح و بہبود اور ترقّی پر زور ہے، جس کا براہِ راست تعلق عوام سے ہے۔اِس وقت دوسرا سب سے اہم مسئلہ تارکینِ وطن کا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس مسئلے کو بہت زور و شور سے اُٹھایا تھا اور عوامی قبولیت حاصل کی، اِسی لیے اُنہیں’’ قوم پرست لیڈر‘‘ کہا جاتا ہے، جو’’ امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے۔ ٹرمپ اور کمیلا کی پہلی ڈیبیٹ میں اسی مسئلے پر فوکس رہا۔
ڈیموکریٹس کی یہ کم زوری ہے اور ٹرمپ نے اس ڈیبیٹ میں بار بار کمیلا کو اس موضوع پر زِچ کرنے کی کوشش کی، جب کہ کمیلا کی کوشش تھی کی وہ اسے ایک پِٹا ہوا اور پرانا موضوع ثابت کریں، جس سے عوام بور ہو چُکے ہیں، لیکن ماہرین کی رائے میں کمیلا، غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے کا کوئی متبادل حل عوام کے سامنے پیش نہیں کرسکیں۔ مشکل یہ ہے کہ وہ خود بھارتی نژاد ہیں اور اگر وہ حد سے زیادہ تارکینِ وطن کا فیور کرتی ہیں، تو یہ پالیسی اُن کے لیے منفی اثرات کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔
بہرحال، تارکینِ وطن کا معاملہ انتخابات میں مرکزی موضوع رہے گا۔ ری پبلکنز کا الزام رہا ہے کہ کمیلا کو میڈیا کی اُسی طرح سپورٹ حاصل ہے، جیسے ہلیری کلنٹن کو 2016ء کے انتخابات میں حاصل تھی، لیکن اس کے باوجود وہ ہار گئیں۔اِس مرتبہ بھارتی سرمائے اور انٹرنیٹ کمپنیز پر بھارتی اجارہ داری بھی ایک اہم عُنصر کے طور پر انتخابات میں داخل ہوچکی ہے۔ بھارت کی فطری خواہش ہے کہ کمیلا کام یاب ہوں۔
میڈیا کے زیادہ تر تبصروں میں یہی تاثر دینے کی کوشش نظر آتی ہے کہ کمیلا اگر ٹرمپ سے آگے نہیں، تو اب اُن سے پیچھے بھی نہیں ہیں۔ نیک ٹو نیک فائٹ کا تاثر دیا جارہا ہے، جب کہ یہی میڈیا صرف دو ماہ پہلے تک بائیڈن کی بدترین حُکم رانی کی وجہ سے اُنہیں کوس رہا تھا۔
تو آخر دو ماہ میں سوائے اُمیدوار کی تبدیلی کے، ایسا کیا ہوا کہ ٹرمپ کے سپورٹرز اُنھیں چھوڑ گئے۔کیا امریکی حالات بدل گئے ہیں، جب کہ بائیڈن تو اب بھی کرسیٔ صدارت پر مزید چھے ماہ کے لیے موجود ہیں۔ ان کے زمانے کی یوکرین اور غزہ کی جنگیں جاری اور منہگائی بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔کیا ڈیموکریٹک پارٹی کوئی انقلابی منشور لائی ہے، مگر کم ازکم اِس کا انکشاف کمیلا نے تو اپنی ڈیبیٹ میں نہیں کیا، اُن کی تمام تر کارکردگی ٹرمپ کی ریلیوں میں کم ہجوم یا اُن کے کپیٹل ہل حملے (جس سے وہ بَری ہوچُکے ہیں) پر رہی۔کمیلا کی کوشش تھی کہ وہ خُود کو ایک نسبتاً کم عُمر، انرجی سے بھرپور اُمیدوار ثابت کریں، اِسی لیے وہ بڑھ بڑھ کر حملے کرتی رہیں، لیکن یوں لگتا تھا، وہ جلدی میں ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابات پر خارجہ امور بہت کم اثر انداز ہوتے ہیں، اِسی لیے ڈیبیٹ میں یوکرین وار کا تو ذکر ہوا، لیکن غزہ پر بات نہیں ہوئی۔یوکرین جنگ پر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ یہ جنگ بند کروائیں گے، جب کہ کمیلا یوکرین کے حقِ دفاع کی حمایت کرتی رہیں۔یعنی یہ وہی موقف ہے، جو بائیڈن نے یوکرین جنگ میں گزشتہ برسوں میں اپنایا، یوکرین اور اسرائیل کو دل کھول کر اسلحہ بانٹا۔ یوکرین کی جنگ صرف امریکا اور یورپ کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی وجہ سے عالمی منہگائی جس طرح اوپر گئی، اُس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تو اِس معاملے پر صرف یہ کہنا کہ یوکرین کے حقِ دفاع کی حمایت کرتے ہیں، سمجھ سے باہر ہے۔
امریکا، مغربی ممالک کا لیڈر ہے اور ان کا مقابلہ روس سے ہے۔آنے والے صدر کے ذہن میں یہ بات صاف ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کو منہگائی کے عفریت سے کس طرح نجات دلائے گا۔ پھر غزہ کا معاملہ تو بائیڈن کے دَور میں شروع ہوا اور کمیلا ہیرس بطور نائب صدر پالیسی میکنگ کی اہم ترین رُکن تھیں، وہ کیسے اسرائیل کی سپورٹ اور غزہ میں ہونے والے قتلِ عام سے مبرّا قراردی جا سکتی ہیں۔
اگر اُن کی رائے کے مطابق، تنازع بات چیت کے ذریعے حل کروانا تھا، تو پھر پچاس ہزار معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام کے انتظار کی کیا ضرورت تھی۔ ٹرمپ اور کمیلا کی اس ڈیبیٹ میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہوا، تاہم جو آنے والے صدر سے اُمیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں، وہ ابھی صبر کا دامن نہ چھوڑیں، شاید اُنہیں اگلی صدارتی مہم تک جانا پڑے کہ فی الحال امریکا کے پاس اور بھی بہت سے معاملات ہیں۔